نئی مردم شماری کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟

2018 کے عام انتخابات 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہوئے تھے جس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی نشتیں کم اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستیں بڑھ گئیں تھیں۔

سال 2017 کی مردم شماری کا طریقہ کار سال 2021 میں اللہ اللہ کرتے ہوئے بالآخر منظور ہوگیا ہے۔ اس مردم شماری پر جتنے بھی اعتراضات اور تحفظات تھے انہیں روایتی سست روی کی وجہ سے دبا دیا گیا۔ پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں جو کردار ادا کرنا تھا اس میں مکمل ناکام ہوئی ہے۔

سال 2013 میں بننے والی قومی اسمبلی نے اپنے اختتام سے تین دن پہلے 2018 میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ مردم شماری کے اعتراضات کو نمٹانے کے لیے اس پر پارلیمنٹ میں مشاورت کرے گی۔ جس پارلیمنٹ نے یہ مردم شماری 2017 میں کروائی تھی وہی پارلیمنٹ اس پر اٹھنے والے اعتراضات، تحفظات اور آڈٹ کے مطالبات پر مشاورت نہیں کرسکی اور اسے 3 دن میں پیش کر کے محض رسمی کارروائی کی گئی۔

کراچی کی شہری آبادی پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور پاکستان کے صوبے بلوچستان کے کچھ اضلاع میں کم شماری کا شکوہ بھی ہوتا رہا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہوئے اور اس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی نشستیں کم جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستیں بڑھ گئی تھیں۔ کراچی بھی اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حریف متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 2017 کی مردم شماری کو مجبوراً تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگئی تھی تاکہ فوری نئی مردم شماری ہو اور اس میں تمام تحفظات اور نقائص کو دور کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

خیبرپختونخوا کی سو فیصد آبادی کے لیے مکمل صحت پروگرام

مشترکہ مفادات کونسل مردم شماری کے طریقہ کار کو تسلیم نہ کرتی تو؟

اگر مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں  سال 2017 کی مردم شماری کا طریقہ کار مسترد ہوجاتا تو وسائل کی تقسیم کا فارمولا 1998 کی مردم شماری پر ہوتا۔ یوں چھوٹے صوبوں اور فاٹا کے ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کے وسائل کم ہوجاتے۔ ترقیاتی بجٹ میں آئندہ 2 سال کے لیے ترجیحات بدلنا پڑتیں۔ پانی، سیوریج، صحت عامہ، تعلیم اور چھوٹی سڑکیں یعنی پبلک ورکس پروگرام کے تحت فنڈز کا موجودہ رخ تبدیل ہوجاتا۔

مردم شماری
Herald Magazine

چھوٹے صوبوں کو فوری کیا فائدہ ہوگا؟

مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں سال 2017 کی مردم شماری کو منظور کرنے سے آئندہ 2 سال کے ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان، اور خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے قبائلی علاقوں کو 23 ارب روپے اضافی مل جائیں گے۔

وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ فوری طور پر 12 ارب روپے آئندہ مالی سال اور مزید  11 ارب روپے مالی سال 2022-23 میں  پسماندہ اور چھوٹے صوبوں کو ترقیاتی بجٹ کے تحت مختلف اسکیموں میں مل سکتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے ہوگا؟

کرونا کی وباء کے بعد پاکستان میں اسمارٹ فون صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں اس وقت 10 کروڑ سے زیادہ افراد اسمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ  ملک میں موبائل فون صارفین کا ڈیٹا مکمل تصدیق شدہ ہے۔ نادرا بھی پاکستان کی 66 فیصد آبادی کا ڈیٹا رکھتا ہے۔ ملک میں غربت کے بارے میں ہونے والا حالیہ سروے بھی نئی مردم شماری میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

حکومت پاکستان نئی مردم شماری کے لیے اقوام متحدہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور یورپی ممالک کی طرز پر خصوصی ایپ بنا کر بھی اس سلسلے میں ڈیٹا کی تیاری کر رہی ہے۔ جن لوگوں نے کرونا کی وباء کے دوران 12 ہزار روپے نقد کے لیے رجسٹریشن کرائی ہے وہ احساس پروگرام کے تحت ڈیٹا کی شکل میں موجود ہے۔

سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں روایتی اور سالوں پرانے محکمہ مال کے ریکارڈز کو بھی اپ گریڈ کردیا گیا ہے۔ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے شہری اور دیہی علاقوں کی پیچیدگیاں اور اس سلسلے میں فرسودہ نظام کو بھی کسی حد تک ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔  

پاکستان نے سال 2018 میں چین کے ذریعے اپنا ایک سیٹلائیٹ خلاء میں بھجوایا تھا جو شہری اور دیہی علاقوں کے جدید ترین سیٹلائیٹ کے نقشے کو چند سیکنڈز میں فراہم کرسکتا ہے۔ یوں اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ نئی مردم شماری کے فریم ورک کی تیاری اور اس سلسلے میں جمع ہونے والی تفصیلات عوام کا اعتماد حاصل کر سکیں گی۔

مردم شماری
EXPRESS

 خصوصی افراد، مذہبی اقلیتوں اور جنس کی مکمل تفصیلات درج ہوں گی؟

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے حکام نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ سال 2017 کی مردم شماری میں وقت کم تھا اس لیے اس میں معذور، نابینا، خصوصی افراد سمیت دیگر کا اہم ڈیٹا شامل نہیں ہوسکا تھا۔ اب نئی مردم شماری کے طریقہ کار اور فریم ورک کی تیاری میں 18 ماہ کا وقت ہے۔ اس مردم شماری میں خصوصی افراد جیسے معذور افراد، معذوری کی نوعیت، نابینا افراد، مکمل نابینا، اور جزوی نابینا افراد، مرد، عورت اور خواجہ سرا، مذہبی اقلیتیں اور غیر ملکی افراد کا مکمل ڈیٹا رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ توقع کی جا رہی ہے کہ ملک کے تمام متعلقین کو اس مردم شماری میں مشاورت کا موقع فراہم کیا جائے گا اور باہمی مشاورت سے ایسی مردم شماری کی جائے گی جس پر عوام کو اعتماد ہو۔  درست شمار ہوگا تو ہی وسائل کی درست تقسیم ہوگی اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں تشفی ہوسکے گی۔

متعلقہ تحاریر