طالبات کا آئی بی اے کی انتظامیہ پر جنسی ہراسگی کا الزام
آئی بی اے کی طالبات کا کہنا ہے کہ امتحانات میں پاس کرنے کے لیے جسمانی تعلق رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں انسٹيٹيوٹ آف بزنس ايڈمنسٹريشن (آئی بی اے) کی طالبات نے انتظامیہ پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
سکھر کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے آئی بی اے کی طالبات کے ویڈیو بیان کے بعد ادارے میں طالبات کے تحفظ کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر ہراسگی پر برطرف
آئی بی اے کی طالبات نے ویڈیو بیان میں ادارے کی انتظامیہ، وائس چانسلر (وی سی) اور پروفیسرز پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یونیورسٹی میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘
طالبات نے ویڈیو پیغام میں الزام عائد کیا ہے کہ ’امتحانات میں پاس کرنے کے لیے جسمانی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسا نا کرنے والی طالبات کو زبردستی فیل کیا جا رہا ہے۔ گرلز ہاسٹل کی نگران زویا اور مریم بھی مافیا کا حصہ بن چکی ہیں۔ نئے وائس چانسلر نے نا اہل افراد کو شعبہ جات کا سربراہ تعینات کیا ہوا ہے۔‘
نقاب لگا کر ویڈیو بیان جاری کرنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ ’نقاب کرونا کی وباء کی وجہ سے نہیں لگایا بلکہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے لگا رکھا ہے۔ آئی بی اے میں پڑھنے والی لڑکیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں کیونکہ گرلز ہاسٹل میں مرد ٹیچرز رہنے لگے ہیں جو طالبات کو تنگ کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب آئی بی اے سکھر کے وائس چانسلر ڈاکٹر میر محمد نے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’الزام لگانے والی لڑکیوں کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لڑکیاں ادارے کی طالبات ہیں۔ ایسا لگتا ہے ملک کے نامور تعلیمی ادارے کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔‘