جامعہ کراچی کے ایم فل پروگرام میں بے ضابطگی کا انکشاف

ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی کے ایڈوانس اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ (اے ایس آر بی) کی انچارج ڈاکٹر ماریہ اور ایک اور رکن عامر بے ضابطگی میں ملوث تھے۔

نیوز360 کو معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک طالب علم کو جعلی دستاویزات پر جامعہ کراچی میں ایم فل میں داخلہ دیا گیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایم فل میں جس طالب علم کو داخلہ دیا گیا تھا اسے آگے چل کر پی ایچ ڈی پروگرام میں تبدیل ہونا تھا مگر یہ داخلہ غیر تصدیق شدہ دستاویزات پر دیا گیا تھا۔

2013 میں جاوید اکرم نامی طالب علم نے فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں ماحولیاتی مطالعات میں داخلہ لیا جسے آگے چل کر پی ایچ ڈی پروگرام میں تبدیل ہونا تھا۔ اردو یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ان کا تبادلہ جامعہ کراچی میں ہوگیا جس کی بنیادی وجہ ان کے پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل چوہدری کا ریٹائرہوجانا تھی۔

یہ بھی پڑھیے

طالبات کا آئی بی اے کی انتظامیہ پر جنسی ہراسگی کا الزام

اسی شعبے سے کئی طلباء نے اردو یونیورسٹی چھوڑ دی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اسی شعبے میں تبادلہ کرالیا۔ جاوید اکرم بھی ان ہی طلباء میں شامل تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی کے ایڈوانس اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ (اے ایس آر بی) کی انچارج ڈاکٹر ماریہ اور ایک اور رکن عامر بے ضابطگی میں ملوث تھے کیونکہ انہوں نے دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے بنیادی اور ضروری دستاویزات کو نظرانداز کیا۔

ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ جب یہ واقعہ منظر عام پر آیا تھا تو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ماریہ نے انکوائری کمیٹی کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کیے تھے اور رپورٹ بھی غیر مستند حقائق کی بنیاد پر مرتب کی گئی تھی جسے 30 اپریل کو ایک اجلاس میں جمع کرایا جانا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امیدوار کا داخلہ اور پورا عمل ریکارڈ کے مطابق بالکل درست تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فی الحال ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ طالب علم کی تحقیق کو مسترد کردیں کیونکہ انہوں نے گذشتہ چند سالوں کے دوران اس موضوع پر تحقیق کے لیے دوڑ دھوپ کی ہے۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالب علم کی دستاویزات کی تصدیق اردو یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل سے کرائی گئی تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے بورڈ کی انچارج ڈاکٹر ماریہ نے بھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام دستاویزات کی جانچ پڑتال اردو یونیورسٹی کے متعلقہ شعبے سے کرائی گئی تھی۔ مگر اس دعوے کے برخلاف اردو یونیورسٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ جاوید اکرم نے اپنے کاغذات کی پڑتال نہیں کرائی تھی جو کہ جامعہ کراچی میں ایم فل پروگرام میں داخلے کے لیے ضروری ہے۔

اگست 2019 میں اردو یونیورسٹی کی گریجویٹ اینڈ ریسرچ مینیجمنٹ (جی آر ایم سی) نے جاوید اکرم کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اپنے داخلے کو منسوخی سے بچانے کے لیے یونیورسٹی سے رابطہ کریں۔

جبکہ طالب علم کے منتخب کردہ پروگرام کی 7 سالہ مدت 30 ستمبر 2019 کو ختم ہوگئی ہے۔ اس دوران جاوید اکرم نے نا تو اپنی فیس جمع کرائی اور نا ہی مطلوبہ تعلیمی معیار پر پورے اترے جس کی وجہ سے ان کا داخلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔

متعلقہ تحاریر