جبری گمشدگیوں اور صحافیوں کے تحفظ کا بل کابینہ کمیٹی سے منظور

قومی اسمبلی کی کابینہ کمیٹی برائے قانون نے بدھ کے روز اپنے اجلاس میں جبری گمشدگیوں کو جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے کابینہ کمیٹی نے 2 مختلف قوانین کی منظوری دے دی ہے۔

قومی اسمبلی کی کابینہ کمیٹی برائے قانون نے بدھ کے روز اپنے اجلاس میں جبری گمشدگیوں کو جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے جس کے بعد ہر اس شخص کو جو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں ملوث ہوگا مجرم سمجھا جائے گا۔

اس کے علاوہ دوسرے بل میں صحافیوں کو ان کے اداروں سے تنخواہیں نا ملنے، تاخیر سے ملنے، بغیر کسی وجہ کے ادارے سے برطرف کیے جانے، تنخواہوں میں کٹوتی جیسے معاملات سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

این اے 249 کے معاملے پر صحافیوں کے ذاتی نوعیت کے حملے

شیرین مزاری نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں اور صحافیوں کے تحفظ کے بلوں کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد یہ قوانین وفاقی کابینہ سے منظور کرائے جائیں گے اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں بحث کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران انسانی حقوق پروان چڑھیں گے۔

شیریں مزاری کے اس ٹوئٹ کے بعد اس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی خبر رساں ادارے پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے سربراہ اویس اسلم علی نے سوال کیا کہ صحافیوں کے تحفظ کے بل کا مسودہ کب منظر عام پر آ ئے گا؟

ڈجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم کارکن نگہت داد نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ وہ مسودہ میں اپنے ادارے کی تجاویز دیکھیں گی جو انہوں نے صحافیوں کے آن لائن تحفظ اور انہیں ہراساں کیے جانے کے بارے میں دیں تھیں۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر نے ٹویٹ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو جائے گا اور اس سے ہزاروں لاپتہ افراد کی مشکلات بھی کم ہوجائیں گی۔

ماہر قانون ریما عمر نے ٹویٹ کرکے امید ظاہر کی کہ اس قانون میں گمشدگی کی تعریف بیان کی گئی ہوگی۔ کسی کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ ملٹری کورٹس کے دائرہ کار کو خارج کیا جائے گا اور اعلی عدالتوں میں اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

اور حامد میر نے ٹوئٹ کیا ہے کہ یہ آخر کار ایک اچھی خبر آ گئی۔

متعلقہ تحاریر