چوہدری غلام حسین صحافی نہیں کباڑیے ہیں، اسد طور
اسد علی طور کا کہنا ہے کہ عدالتی اور بینک ریکارڈ کے مطابق چوہدری غلام حسین کباڑیے ہیں۔
اسلام آباد کے یوٹیوبر اور صحافی اسد علی طور نے دعویٰ کیا ہے کہ اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن چوہدری غلام حسین صحافی نہیں بلکہ کباڑیے ہیں۔
اپنی ویڈیو میں اسد علی طور نے کہا کہ چوہدری غلام حسین اسکریپ کا کاروبار کرتے ہیں۔ عدالتی اور بینک ریکارڈ کے مطابق چوہدری غلام حسین کباڑیے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر صحافیوں کو بیٹھنا چاہیے لیکن ایک چینل پر کباڑیے چوہدری غلام حسین بیٹھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
شفا یوسفزئی اور اسد طور کا معاملہ میشا اور علی ظفر جیسا ہے؟
انہوں نے کہا کہ چوہدری غلام حسین کا لاہور کے بادامی باغ میں کباڑ کا کاروبار تھا۔ یہ تفتان سے لوہا درآمد کر کے مختلف صنعتوں کو فروخت کرتے تھے۔ ان کی کمپنی کا نام ’میاں اینڈ کمپنی‘ ہے۔ سنہ 2000 میں انہوں نے پروڈینشل کمرشل بینک سے قرضہ لیا جو بعد میں سعودی پاک کمرشل بینک بنا اور آج کل اسے سلک بینک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چوہدری غلام حسین نے 3 کمپنیز کے نام پر قرضہ لیا تھا۔ انہوں نے میاں اینڈ کمپنی کے نام پر ڈیڑھ کروڑ، عمر بلال پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام پر 6 کروڑ اور عمر بلال ٹریڈرز کے نام پر ڈھائی کروڑ روپے قرض لیا تھا۔ مجموعی طور پر انہوں نے 10 کروڑ روپے کے قریب قرض لیا تھا۔
اسد علی طور نے دعویٰ کیا ہے کہ چوہدری غلام حسین کے 2 بیٹے عمر اور بلال ہیں جن کے لیے قرض لیا گیا تھا۔ تینوں قرضوں میں انہوں نے دھوکہ کیا ہے۔ لاہور کے فیروز پور روڈ پر واقع وینس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ان کی جائیداد تھی جسے گروی رکھوا کر یہ قرض لیا گیا تھا۔ جب چوہدری غلام حسین نے دھوکہ کیا تو بینک نے فنانشنل انسٹیٹیوشن آرڈیننس (ایف آئی او) 2001 کے تحت قرض کی واپسی کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ اس قانون کے تحت 5 کروڑ روپے سے زیادہ کے قرض کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں ہے اور 5 کروڑ روپے سے کم کے قرض کا مقدمہ بینکنگ کورٹ میں۔
انہوں نے بتایا کہ عمر بلال پرائیوٹ لمیٹڈ کے 6 کروڑ کے قرض کا دعویٰ لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہوا جس کی سماعت جسٹس عظمت سعید شیخ نے کی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ اور دونوں بینکنگ کورٹس نے بینک کے حق میں فیصلے سنائے اور چوہدری غلام حسین کو نادہندہ قرار دیا۔ جس کے بعد چوہدری غلام حسین نے درخواست دائر کی جس میں کہا کہ ان کا موقف سنے بغیر ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا ہے۔ اس درخواست پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے اپنے فیصلے میں انہیں جھوٹا قرار دیا۔
اسد علی طور نے کہا کہ چوہدری غلام حسین کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ بینک نے ایک اور درخواست دائر کی جس میں کہا کہ چوہدری غلام حسین کی وہ جائیداد بینک کی حوالے کی جائے جس کو گروی رکھوا کر انہوں نے قرض لیا تھا۔ جس کے بعد غلام محی الدین نامی شخص نے ایک درخواست دائر کی جس میں کہا کہ یہ جائیداد میری والدہ کے نام پر ہے جن کا 1988 میں انتقال ہوچکا ہے۔
چوہدری غلام حسین نے جعلی دستاویزات کے ذریعے بینک سے قرض لیا ہے۔ یہ بات عدالت میں ثابت ہوئی اور عدالت نے وہ جائیداد واپس مالک کے حوالے کروائی جو جعلی طریقے سے چوہدی غلام حسین نے ہتھیا لی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے چوہدری غلام حسین کو طلب کرتا رہا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ بینکنگ کورٹ نے بھی چوہدری غلام حسین کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ جس کے بعد بینکنگ جرائم کورٹ نے چوہدری غلام حسین کو اشتہاری قرار دیا لیکن انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
اسد علی طور نے کہا کہ جرائم کورٹ نے ایف آئی اے کو چوہدری غلام حسین کا شناختی اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیا لیکن ایف آئی اے نے عدالتی حکم کی تعمیل نہیں کی۔
چوہدری غلام حسین نے نامور صحافی ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1979 میں کیا تھا۔ وہ ہفت روزہ اخبار ’مارننگ نیوز‘ سے منسلک رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی مختلف صحافتی اداروں میں کام کیا۔ وہ بزنس پلس نیوز پر ٹاک شو ’چوہدری غلام حسین کے ساتھ‘ کی میزبانی بھی کرچکے ہیں۔ جس کے بعد 24 نیوز کے ٹاک شو ’ڈی این اے‘ کے میزبان بھی رہے۔
حال ہی میں چوہدری غلام حسین نے پبلک نیوز میں شمولیت اختیار کی تھی جہاں وہ ٹاک شو ’دو ٹوک‘ میں سعید قاضی کے ساتھ میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ تاہم ان دنوں وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’دا رپورٹرز‘ کی میزبانی بھی کر رہے ہیں۔