سینیٹ سے ضمنی انتخاب تک الیکشن کمیشن کی کارکردگی

سینیٹ انتخاب پر حکومتی اعتراضات جبکہ این اے 75 اور این اے 249 کے انتخاب میں حزب اختلاف کے اعتراضات سامنے ہیں۔

پاکستان میں سینیٹ کے انتخاب سے لے کر حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب تک مبینہ دھاندلی کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی کارکردگی پر سوالات کیے جا رہے ہیں۔ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں پریزائڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے کا معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔

3 مارچ 2021 کو سینیٹ کے انتخاب میں حزب اختلاف کے امیدار یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد کی جنرل نشست پر حکومت کے امیدوار اور اُس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو 5 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ یوسف رضا گیلانی نے 169 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ عبدالحفیظ شیخ کو 164 ووٹ ملے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پنجاب بھر میں لاک ڈاؤن کا درست فیصلہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت سینیٹ میں شو آف ہینڈز یعنی کھلی رائے شماری کے ذریعے انتخاب کرانے میں حق میں تھی جبکہ حزب اختلاف خفیہ رائے شماری چاہتی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخاب خفیہ رائے شماری سے منعقد کیے گئے تھے۔

الیکشن کمیشن سوالیہ نشان

حکومتی جماعت کے امیدوار اکثریت میں ہونے کے بعد باوجود ہار گئے تھے جس پر حکومت نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر کئی اعتراضات کیے تھے۔

اسی طرح الیکشن کمیشن نے 19 فروری کو ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے کی جانے والی سماعت کے بعد 25 فروری کو اپنے مختصر فیصلے میں صاف شفاف اور منصفانہ انتخاب نہ ہونے پر اس انتخاب کو کالعدم قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ پورے حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ انتخابات کروائے جائیں گے لیکن بعد میں 10 اپریل کی تاریخ دی گئی تھی۔

اب صوبہ سندھ کے لیے این اے 249 کراچی کی نشست پر ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات پیدا کردیے ہیں۔

الیکشن کمیشن سوالیہ نشان
First Post

این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا۔ حلقے سے کامیاب ہونے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے ووٹوں کی گنتی کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی)، ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ریٹرننگ آفیسر کو بائیکاٹ کا خط جمع کرادیا ہے تاہم ووٹوں کی دوبارہ گنتی جاری ہے۔

جمعرات کے روز مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار مفتاح اسماعیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ریٹرننگ آفیسر نے کہا کہ آپ کو فارم 46 نہیں دیں گے۔ گنتی سے قبل ہی ووٹوں کا تھیلا کھلا ہوا تھا۔ دوبارہ کتنے بیلٹ پیپرز آئے اور کتنے استعمال ہوئے ریکارڈ نہیں دیا جارہا۔ اس عمل کو مسترد کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن سوالیہ نشان

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار امجد آفریدی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن ملے ہوئے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ملازمین پریزائیڈنگ افسر تھے۔ دھاندلی ہوئی ہے، اب  ہمیں فارم 46 نہیں دیا گیا اور صرف 70 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 دیے گئے ہیں۔ فارم 46 کے بغیر دوبارہ کیسے گنتی کی جاسکتی ہے؟ جب تک فارم 46 اور تمام پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 نہیں دیے جاتے ہم دوبارہ گنتی کا حصہ نہیں بن سکتے۔

جبکہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے رہنما حفیظ الدین کا کہنا تھا کہ گنتی سے قبل ہی ووٹوں کے تھیلے کھلے ہوئے تھے۔ ریٹرننگ آفیسر دھاندلی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فارم 46 کسی امیدوار کو نہیں دیے گئے اور تمام جماعتیں دوبارہ گنتی کے عمل کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔

این اے 249 سے پیپلزپارٹی کے کامیاب امیدوار عبدالقادر مندوخیل نے کہا ہے کہ دوبارہ گنتی ہورہی ہو تو فارم 46 کا تعلق نہیں بنتا۔الیکشن کمیشن جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

ادھر پیپلزپارٹی کے رہنما اور صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ پہلے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا شور مچایا جارہا تھا اور اب تمام جماعتیں اس عمل کا بائیکاٹ کررہی ہیں۔ کیا مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی، ایم کیوایم اور پی ایس پی کا اتحاد ہوگیا ہے۔

متعلقہ تحاریر