تعلیمی اداروں کی فیس میں 20 فیصد کمی کے مثبت اور منفی پہلو

کرونا کی وباء 2 لاکھ 7 ہزار نجی تعلیمی ادارے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 30 ہزار تعلیمی ادارے بند ہوچکے ہیں۔

وفاقی حکومت نے وفاق کے نجی تعلیمی اداروں کو 20 فیصد فیس معافی کی ہدایت کی تھی جس کے خلاف پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا تاہم ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کی درخواست مسترد کردی ہے۔

والدین کا موقف ہے کہ کرونا کی وباء کے سبب گذشتہ اور رواں برس بچے بہت کم وقت کے لیے اسکول گئے ہیں۔ اس لیے ان سے پوری فیس کی وصولی نامناسب اور ظلم کے مترادف ہے۔ جبکہ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کرونا کی وباء کے سبب ملک میں قائم 2 لاکھ 7 ہزار نجی تعلیمی ادارے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 30 ہزار تعلیمی ادارے بند اور لاکھوں اساتذہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تعلیمی منصوبے خیبرپختونخوا حکومت کی ترجیح

نجی اسکولز فیسوں میں 20 فیصد رعایت دیں، حکومت

پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) نے وفاق کے تمام نجی تعلیمی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپریل اور مئی کی فیس میں 20 فیصد رعایت دیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق فیسوں میں کمی کا اطلاق 8 ہزار سے زیادہ فیسوں والے اداروں پر ہوگا۔

پیرا کیا ہے؟

پیرا نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی ہے جو 2006 سے کام کررہی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن، تصدیق اور نگرانی کے علاوہ معیار، شفافیت اور تعلیمی خدمات کی بہتری کو یقینی بنانا اس کے فرائض میں شامل ہے۔

اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن ایکٹ 2013 کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے تمام نجی تعلیمی اداروں کی پیرا میں رجسٹریشن ضروری ہے۔

پرائیویٹ اسکولز کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع

پیرا کے نوٹیفکیشن کے خلاف پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) نے غیرمعمولی حالات میں فیسوں میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

کیا نجی اسکولز منافع نہیں کما رہے؟ چیف جسٹس

پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے وکیل کا مؤقف تھا کہ نجی تعلیمی ادارے عمارتوں کے کرائے دے رہے ہیں۔ آن لائن کلاسز میں اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور اخراجات پہلے کی طرح ہی ہیں۔ اس لیے فیسوں میں رعایت کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پرائیویٹ اسکولز منافع کماتے ہیں؟ جس پر وکیل نے موقف اپنایا کہ اہم اسٹیک ہولڈرز ہونے کے باوجود پیرا کی جانب سے فیصلہ کرنے سے قبل ہمیں سنا ہی نہیں گیا۔ جبکہ فیس اسٹرکچر رولز سے متعلق انٹراکورٹ اپیل زیرالتواء ہے۔

پرائیویٹ اسکولز کی درخواست مسترد

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد ازاں 7 صفحات پر جاری تحریری فیصلے میں پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کی فیسوں میں رعایت کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں کہا کہ پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ریگولیٹری اتھارٹی نے اپریل سے اسکول کھلنے تک پرائیویٹ اسکولز کو فیس میں 20 فیصد رعایت کا نوٹیفیکشن جاری کیا تھا جس کے خلاف درخواست گزار کی استدعا کے لیے یہ عدالت متعلقہ فارم نہیں ہے۔ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن این سی او سی کے پاس تحفظات لے کر جاسکتی ہے۔ پیرا کی جانب سے کیے گئے پالیسی فیصلے پر اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی ہے۔

اسکولوں کی بندش پر بھی پوری فیس کیوں وصول کی جارہی ہے؟ والدین

نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کا موقف ہے کہ فیسوں میں مزید کمی ہونی چاہیے۔ ایک شہری راحیل نواز سواتی (جن کا بیٹا نجی تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے) کا موقف ہے کہ گذشتہ اور رواں برس صرف چند روز ہی طلبا اسکول گئے ہیں مگر نجی تعلیمی ادارے ان سے مسلسل فیس وصول کرتے رہے ہیں۔ کرونا کی وباء کے سبب والدین کو بھی معاشی مسائل کا سامنا ہے مگر اسکولوں نے محض کچھ ماہ ہی فیسوں میں رعایت دی۔

 

ان کا کہنا ہے کہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کو نصف یا اس سے کم فیس وصول کرنی چاہیے کیونکہ اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ معطل ہونے اور آن لائن کلاسز کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے اخراجات میں کمی آئی ہے۔

کرونا نے ہمیں بھی متاثر کیا پھر بار بار نوٹس کیوں؟

ایک اور والد فاروق احمد نے کہا ہے کہ فیس وقت پر ادا نہ کرنے والے طلبا کو بار بار نوٹس بھیجا جاتا ہے اور آن لائن کلاسز میں شمولیت کی اجازت نہیں دی جاتی جو انتہائی غیر مناسب رویہ ہے۔ اس صورتحال میں والدین کے معاشی مسائل کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ جبکہ کئی والدین کرونا کی وباء کا شکار ہوچکے ہیں۔ بہت سے والدین کی ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں اور کئی خاندانوں میں کرونا سے اموات بھی ہوچکی ہیں۔ مگر اسکولوں کی انتظامیہ کو ان باتوں سے غرض نہیں بلکہ صرف فیس وصولی سے دلچسپی ہے۔

پوری فیس اسکول لے، خرچ ہمارے ذمہ کیوں؟ اساتذہ کا گلہ

دوسری جانب ایک نجی ادارے کی خاتون ٹیچر ماہ جبین (فرضی نام) نے کہا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے والدین سے تو پوری فیس وصول کرتے ہیں مگر کئی اساتذہ کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کرتے۔ جبکہ آن لائن کلاسز کے لیے اساتذہ کو کوئی تربیت فراہم نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکول انتظامیہ آن لائن کلاسز کا کہہ کہ پوری فیس لیتی ہے مگر ٹیچر کو کوئی لیپ ٹاپ یا موبائل فون فراہم نہیں کیا جاتا ہے اور انٹرنیٹ کے لیے بھی انہیں ذاتی جیب سے رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

کرونا کے سبب 30 لاکھ نجی تعلیمی ادارے بند، ایسوسی ایشن

آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار حسین نے نیوز 360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا کی وباء کے سبب ملک میں قائم 2 لاکھ 7 ہزار نجی تعلیمی ادارے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 30 ہزار تعلیمی ادارے بند اور لاکھوں اساتذہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کو بلا سود قرضوں سمیت ریلیف پیکج فراہم کیا جائے تو وہ 20 فیصد نہیں بلکہ 50 فیصد تک فیس میں رعایت دینے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی بندش قطعی منظور نہیں ہے۔ اگر حکومت نے یہ روش برقرار رکھی تو ہم عنقریب نجی تعلیمی اداروں کا اجلاس بلا کر ازخود تعلیمی ادارے کھول دیں گے۔

ملک ابرار حسین نے مطالبہ کیا کہ اساتذہ اور طلباہ کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین ترجیح بنیادوں پر فراہم کی جائے۔

اساتذہ اور طلباء کو بھی کرونا ویکسین لگائی جائے

ملک ابرار حسین نے کہا کہ کرونا کی وباء پھیلنا شروع ہوئی تو حکومت نے سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کیے۔ جبکہ دنیا میں اس کے برعکس تعلیمی ادارے سب سے آخر میں بند کیے گئے۔ طلباء امتحان کے بغیر پروموٹ ہورہے ہیں جبکہ اسکول مستقل بند ہیں جس سے طلباء کا نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ ہے اور کرونا کی وباء کے سبب اسکولوں کی بندش سے چائلڈ لیبر کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر نے کہا کہ حکومت نے اسکول کھولنے اور چائلڈ لیبر کی تعداد کم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ جبکہ حکومت تسلیم کر چکی ہے کہ تعلیمی اداروں میں سب سے اچھی طرح کرونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں مگر پھر بھی اسکولوں کی بندش قابل افسوس ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اساتذہ اور طلباء کو ترجیحی بنیادوں پر کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے۔

ملک ابرار حسین نے کہا کہ نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے احتجاج اور دھرنوں کے بعد حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ بند ہونے والے تعلیمی اداروں کو بحال کیا جائے گا اور اساتذہ کو تنخواہوں کی فراہمی کے لیے اسکول انتظامیہ کو بلاسود قرضے دیے جائیں گے مگر ان وعدوں پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو بلاسود قرضے اور ریلیف پیکج کا اعلان کر کے ہمیں فیس کم کرنے کا کہا جاتا تو 20 کی جگہ 50 فیصد کم فیس وصول کرتے۔ ریلیف پیکج دیا جاتا تو نہ اسکول بند ہوتے اور نہ اساتذہ کی تنخواہوں سے محروم ہوتے۔ عمارتوں کا کرایہ ادا کرنے میں بھی سہولت رہتی جبکہ تعلیمی ادارے وہ 17 فیصد ٹیکس بھی ادا کرتے جو پہلے ادا کرتے رہے ہیں مگر حکومت نے یکطرفہ اقدام کیا اور اسکولوں سے کہا کہ وہ فیس کم کردیں۔

آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار حسین نے کہا کہ حکومت فیصلے کرتے ہوئے زمینی حقائق پیش نظر رکھے۔ اگر مزید تعلیمی ادارے بند ہوئے تو اسکولوں سے باہر جانے والے بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے سبب کوئی معمول نہ ہونے کے باعث طلباء نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر حکومت طلباء میں کرونا کیسز کی موجودگی کا دعویٰ کرتی ہے تو اس کے حقائق بھی سامنے لائے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نجی تعلیمی اداروں کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ تعلیمی ادارے تو 3 ماہ سے بند ہیں پھر اسکولوں سے کرونا کی وباء کیسے پھیلا رہی ہے؟

متعلقہ تحاریر