صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا بل پھر تنازعے کا شکار

اسپیکر قومی اسمبلی نے دونوں بلوں کے مسودوں کے جائزے کا فیصلہ سنادیا۔

قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کا بل پیش کیا گیا تو پیپلز پارٹی نے دوبارہ مخالفت کی اور  پھر اس کام کا سہرا بھی اپنے سر سجانے کی کوشش کی۔

قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے بل پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ پیپلز پارٹی نے حکومت کے اس کام کا سہرا بھی اپنے سر سجانے کی کوشش کرتے ہوئے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ رہنما پیپلز پارٹی نفیسہ شاہ نے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کا تحفظ بل 2021 پیش کرنے کی تحریک چلانے سے متعلق کہا کہ پیپلز پارٹی یہ بل 2012ء میں لائی اس بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ جس پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اپوزیشن حکومتی بل کی نقل کرکے لےآئی ہے۔

نفیسہ شاہ نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر دعویٰ کیا کہ یہ بل 2012 میں انہوں نے پیش کیا تھا۔ شیریں مزازی نے زور دیا کہ یہ بل نیا ہےاور انہوں نے بذات خود اس کا مسودہ تیار کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے موقف اختیار کیا کہ اگر یہ بل 2012 میں پیش کیا گیا تھا تو اس وقت منظور کیوں نہیں کرایا گیا؟ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2012 میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی۔

یہ بھی پڑھیے

صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا بل کابینہ سے منظور

اس بحث و تقرار کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے موقف اختیار کیا کہ بل کو متنازع نہ بنایا جائے۔ دونوں بلوں کے مسودوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔

اس سے پہلے بھی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بہن بختاور بھٹو زرداری نے حکومت کے احساس پروگرام کو بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دوسرا نام قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت صحافیوں کو ان کے اداروں سے تنخواہیں نا ملنے، تاخیر سے ملنے، بغیر کسی وجہ کے ادارے سے برطرف کیے جانے اور تنخواہوں میں کٹوتی جیسے معاملات سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر