غیرمنتخب وزیر اور مشیران حکومت کے لیے درد سر

وزیر اعظم عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے غیر منتخب وزیر اور مشیران کی تقرری ان کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے غیر منتخب وزیر اور مشیران کی تقرری ان کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ یہی غیر منتخب افراد حکومت کے لیے درد سر بھی بن گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں کئی غیر منتخب وزیر اور مشیران موجود ہیں جنہیں ریاستی امور چلانے کے لیے ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ لیکن یہی مشیران حکومت کے لیے درد سر بنے جن سے حکمراں جماعت کی آبرو پر حرف بھی آیا ہے۔ تحریک انصاف میں کئی ایسے وزراء موجود رہے ہیں جو کرپشن، بدعنوانی یا اس جیسے دیگر مقدمے میں نامزد ہوئے ہیں۔ ان وزراء میں زلفی بخاری، عامر کیانی، ڈاکٹر ظفر مرزا، جہانگیر ترین، ندیم بابر، شہزاد اکبر، عبدالحفیظ شیخ اور تانیہ ادروس شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جہانگیر ترین گروپ پنجاب حکومت کے لیے خطرہ

زلفی بخاری

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد 18 ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست زلفی بخاری کو معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز مقرر کیا تھا۔ یہ بھی غیر منتخب وزیر اور مشیران میں سے ایک ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف حزب اختلاف نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور انہیں نااہل قرار دینے اور دوہری شہریت کی بنیاد پر عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔

پاکستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے 26 دسمبر 2018 کو زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد کردی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ اس معاملے کو تب دیکھیں گے جب زلفی بخاری نے وزیر کی حیثیت سے کام کیا یا اختیارات سے تجاوز کیا۔

The News

تاہم چند ماہ بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے برٹش ورجن آئی لینڈز میں آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعد زلفی بخاری کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) نے رہنما عطاء اللہ تارڑ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان اور زلفی بخاری راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے سے براہِ راست مستفید ہونے والوں میں سے ہیں۔ دونوں نے منصوبے سے بھاری مالی فوائد حاصل کیے کیونکہ ان کی اراضی منصوبے کے قریب واقع تھی۔

پیر کے روز زلفی بخاری رنگ روڈ اسکینڈل کی وجہ سے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔

بدھ کے روز سینیئر صحافی حامد میر نے اپنے پروگرام کا کچھ حصہ ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے جس میں وہ زلفی بخاری سے بات کر رہے ہیں۔ زلفی بخاری نے کہا کہ میں کہیں نہیں بھاگوں گا، اگر میرے بھاگنے کا ڈر ہے تو میرا نام ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) میں ڈال دیں۔

عامر محمود کیانی

عامر محمود کیانی وزیراعظم عمران خان کی پہلی کابینہ میں وزیر صحت نامزد تھے۔ ادویات کی قیمتوں میں نامناسب اضافے پر تنازعے کے بعد انہیں اپریل 2019 میں عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے گذشتہ برس 9 جون کو سابق وزیر صحت عامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی۔ عامر محمود کیانی نے نیب کی جانب سے انکوائری فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہے تھے لیکن انکوائری انہیں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے تمام سوالات کے جواب ہر فورم پر دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوا ساز کمپنیز کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق دی گئی تھی اور یہ اجازت وفاقی کابینہ کی جانب سے دی گئی تھی۔

غیر منتخب وزیر مشیران
ARY

ڈاکٹر ظفر مرزا

پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف بدعنوانی اور ماسکس کی اسمگلنگ سمیت مختلف الزامات کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ گذشتہ برس مارچ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈریپ غضنفر علی کے خلاف 2 کروڑ ماسکس کی اسمگلنگ کی شکایت ملنے پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کررہے ہیں۔

جس کے بعد 13 اپریل 2020 کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کرونا کی وباء پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا بھی کہا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے بعد ازاں سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر کرونا کی وباء کے حوالے سے وفاقی حکومت کا مقدمہ درست طریقے سے پیش نہ کرنے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش بھی کی تھی۔

جون 2020 میں نیب نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری دے دی تھی۔ نیب نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف کرونا کی وباء کے پھیلاؤ کے دوران 2 کروڑ فیس ماسکس اور دیگر پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ (پی پی ای) کی اسمگلنگ اور انڈیا سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی آڑ میں وٹامنز، ادویات اور سالٹس کی درآمد میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت کارروائی کی منظوری دی تھی۔

بعدازاں 29 جولائی 2020 کو ڈاکٹر ظفر مرزا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جسے کچھ ہی دیر بعد منظور کرلیا تھا۔

غیر منتخب وزیر مشیران
SAMAA TV

جہانگیر ترین

گذشتہ برس 21 فروری کو وفاقی حکومت نے ملک بھر میں چینی کی قیمت میں اچانک اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس انکوائری کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جہانگیر ترین کے گروپ کو چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد سمیت سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار میں کمی کا امکان تھا اور اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کے باعث سے مقامی بازاروں میں چینی کی قیمت تیزی سے بڑھی۔

21 مئی 2020 کو چینی بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ وفاقی حکومت منظرعام پر لائی تھی۔ رپورٹ کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصے دار 6 گروہوں کا آڈٹ کیا گیا تھا۔ آڈٹ میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ کو 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پایا گیا تھا۔

7 جون 2020 کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی جہانگیر ترین بیرون ملک چلے گئے تھے۔ جون میں جہانگیر ترین انگلینڈ روانہ ہوگئے تھے۔

جہانگیر ترین کئی ماہ تک انگلینڈ میں قیام کے بعد نومبر 2020 میں وطن واپس آئے تھے اور لاہور میں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ گذشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہے ہیں اور علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آگئے ہیں۔

Pakistan Today

ندیم بابر

گذشتہ برس ملک میں پیٹرلیم بحران پیدا ہوا تھا اور ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہے کہ پیٹرولیم کی ذخیرہ اندوزی کس نے کی ہے۔ تاہم اس بحران پر عمران خان نے ندیم بابر نے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کو عہدے سے استعفیٰ دینے کی ہدایت کی تھی۔

پیٹرولیم بحران ندیم بابر
Courtesy: Aaj TV

شہزاد اکبر

رواں برس جنوری میں براڈ شیڈ کمپنی کے مالک نے ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کسی کا نام لیے بغیر الزام لگایا تھا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے ساتھ ایک فرد نے ان سے 2018 میں ایک ارب ڈالرز کے اکاؤنٹ سے متعلق ملاقات کی تھی لیکن انہوں نے تفتیش کرنے کے بجائے کک بیک لینے میں زیادہ دلچسپی لی تھی۔

تاہم وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے موسوی کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ براڈشیٹ کے مالک سے 2 بار 2018 میں نہیں بلکہ 2019 میں ملے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات کمپنی کو دیئے جانے والے ایوارڈ پرائزپرتبادلہ خیال کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ کہ نیب اور براڈشیٹ کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) نے مشیراحتساب شہزاد اکبر پر الزام لگایا کہ انہوں نے  براڈشیٹ کے مالک سے کک بیک کا مطالبہ کیا ہے۔ غیر منتخب وزیر اور مشیران میں شہزاد اکبر سب سے اہم مشیر ہیں۔

شہزاد اکبر
Dawn

عبدالحفیظ شیخ

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آخری وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو 6 ماہ کے لیے آئین کی خصوصی فراہمی کے ذریعے وزیر کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ تاہم وہ سینیٹ کے انتخاب میں ایک نشست نہیں جیت سکے تھے۔

رواں سال مارچ میں استعفی دینے کے بعد یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سابق وزیر نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ 6 بلین ڈالرز کے معاہدے میں پاکستان کی پوزیشن پر سمجھوتہ کیا تھا۔

عبدالحفیظ شیخ
Global Village Space

تانیہ ایدروس

وزیراعظم عمران خان کی سابق معاون خصوصی برائے ڈجیٹل تانیہ ایدروس نے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن کے نام سے این جی او بنائی تھی جسے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کرایا گیا تھا جبکہ این جی او کے ڈائریکٹرز میں جہانگیر ترین اور تانیہ ایدروس شامل تھے۔

غیر منتخب وزیر مشیران
The News

اس فاؤنڈیشن کی فنڈنگ میں بے ضابطگیوں کے بھی الزامات سامنے آئے تھے جس پر وزیراعظم عمران خان نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ تانیہ ایدروس پاکستان کے علاوہ کینیڈا اور سنگاپور کی شہریت بھی رکھتی ہیں۔

تانیہ ایدروس نے 2020 میں استعفیٰ دیا تھا جس میں انہوں نے اپنی دہری شہریت پر تنقید کو وجہ بتائی تھی۔ یہ خاتون بھی ان غیر منتخب وزیر اور مشیران میں شامل ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

متعلقہ تحاریر