حکومت اسد طور کے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ
گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
حکومت پاکستان حال ہی میں صحافی و یوٹیوبر اسد علی طور پر ہونے والے تشدد کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہے اور حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔
منگل کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ’اسد علی طور پر حملے کے معاملے کی تحقیقات ہورہی ہے اور حملہ آوروں میں سے ایک کے قریب پہنچ گئے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
بےروزگار صحافی اسد طور پر بہیمانہ تشدد
انہوں نے بتایا کہ ’ہم اسد علی طور پر حملہ کرنے والے 3 میں سے ایک ملزم کی شناخت کے قریب ہیں۔ فنگر پرنٹس حاصل کیے جارہے ہیں جبکہ سی سی ٹی وی ویڈیو میں بہت دور تک ملزمان کا تعاقب کیا گیا ہے۔‘
شیخ رشید نے کہا کہ ’اگر آئندہ تین چار دن میں ان 3 لوگوں تک نہ پہنچ سکے تو پھر ان کا اشتہار دیں گے۔ انہیں پکڑنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہمارے حساس اداروں کو بلاوجہ نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق ’عمارت کے استقبالیہ پر موجود شخص کا کہنا ہے کہ ملزمان پہلے بھی آتے تھے اس لیے انہیں روکا نہیں گیا۔‘
ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں اسد علی طور نے لکھا ہے کہ ’نادرا فنگر پرنٹ کا تجزیہ کر رہا ہے جس کے نتائج جلد ہی سامنے آئیں گے۔ ورنہ ہم تینوں مشتبہ افراد کی تصاویر کے ساتھ اخبارات میں اشتہار دیں گے کیونکہ کچھ لوگ ہماری ایجنسیز پر ایک مخصوص ایجنڈے کے مطابق الزام لگا رہے ہیں۔‘
Nadra was conducting a fingerprint analysis the results of which would be out soon. "Otherwise we will give ads in the newspapers with the photos of the three suspects because some people are accusing our agencies according to a specific agenda.” https://t.co/g3IkIq0Kkr
— Asad Ali Toor (@AsadAToor) June 1, 2021
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ حکومتی نمائندوں اور صحافی برادری نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔
واقعے کے خلاف احتجاج میں سینیئر اینکر پرسن حامد میر نے ریاستی اداروں اور حکومت پر تنقید کی تھی جس کے بعد بیشتر سوشل میڈیا صارفین کی جانب ریاستی اداروں پر سوالات کیے جانے لگے تھے تاہم اب حکومت ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔