وفاقی بجٹ سے قبل پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں قائم

پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں کے معاملے پر وفاقی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگیا۔

"بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا” ڈھائی ماہ سے اپوزیشن کے مطالبے پر کان نہ دھرنے والی حکومت نے بالآخر آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ سے قبل 37 پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اعلان کردہ قائمہ کمیٹیوں کے سربراہان کا انتخاب بھی کرلیا گیا۔ بجٹ کی منظوری کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور منصوبہ بندی و ترقیات کا قیام ناگزیر تھا۔سینیٹر طلحہٰ محمود چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔

حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک ختم

وفاقی بجٹ سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹیاں تشکیل دینے کے معاملے پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگیا ہے۔ بجٹ سے قبل قائمہ کمیٹیوں کا معاملہ حل کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور منصوبہ بندی کی تجاویز آئینی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کے تاجر اب سندھ حکومت کی نہیں مانیں گے

پارلیمانی نظام میں قائمہ کمیٹیوں کی بنیادی اہمیت

وفاقی بجٹ سے قبل قائمہ کمیٹیاں پارلیمانی نظام میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور مقننہ کا اہم جزو تصور کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اکثر چھوٹی مقننہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک متحرک کمیٹی نظام سے ہی ایگزیکٹو کا مقننہ تک اور مقننہ کا عوام تک حقیقی احتساب ممکن ہوسکتا ہے۔

قائمہ کمیٹیوں کا استحکام، مقننہ کا استحکام

قائمہ کمیٹیوں کے کردار کو مستحکم کرنے کا مطلب مقننہ کو مستحکم کرنا ہے۔ سینیٹ اکثر اپنی کارروائیاں کمیٹیوں کے ذریعے ہی سرانجام دیتا ہے۔ یہ کمیٹیاں کارروائیوں کی خاص عوامل (جن میں ماہرانہ یا تفصیلی غوروخوض درکار ہوتا ہے) نمٹانے کے لیے مقرر کی جاتی ہیں۔ پارلیمانی کمیٹیوں کا نظام خاص طور پر ان معاملات کے لیے بہتر تصور کیا جاتا ہے جو خاص اور تکنیکی نوعیت کے ہوتے ہیں، جو بذات خود پورے ایوان کی بجائے کم اراکین کی جانب سے تفصیلی زیر بحث لائے جاتے ہیں۔

پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں ایوان کا وقت بچاتی ہیں

یہ نظام اہم معاملات کی بحث کے لیے ایوان کا وقت بچاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو تفصیل میں جانے اور اس کے ذریعے پالیسی معاملات اور وضع کردہ اصولوں پر گرفت ڈھیلی پڑنے سے بچاتا ہے۔

تین درجن سے زیادہ سینیٹ کمیٹیاں

سینیٹ میں قائمہ کمیٹیوں کی تعداد تین درجن سے زیادہ ہے جبکہ فعال کمیٹیاں ان کے علاوہ ہیں۔ یہ کمیٹیاں ہر 3 سال بعد نصف سینیٹرز کی مدت مکمل ہونے پر سبکدوشی کے سبب ختم ہوجاتی ہیں اور نئے سینیٹرز کے انتخاب کے بعد دوبارہ تشکیل دی جاتی ہیں۔

سینیٹ ڈھائی ماہ سے کمیٹیوں سے محروم

سینیٹ کے نصف اراکین کے لیے انتخاب رواں برس 3 مارچ کو منعقد ہوا تھا اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے ایوان کے اراکین نے حق رائے دہی 12 مارچ کو استعمال کیا تھا۔ مگر آئینی تقاضہ ہونے کے باوجود ڈھائی ماہ تک قائمہ کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جاسکی تھیں اور اس سلسلے میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ہونے والی کئی ملاقاتیں بھی بےسود رہی تھیں۔

ایک سینیٹر 5 قائمہ کمیٹیوں کا رکن بن سکتا ہے

آئندہ مالی سال 2021-22 کے بجٹ کے حوالے سے سینیٹ کی تمام کمیٹیوں کی تشکیل نو جلد از جلد کرنا ضروری ہوگیا تھا کیونکہ مالیاتی بل سمیت سینیٹ میں پیش ہونے والے تمام بل براہ راست متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیئے جاتے ہیں۔

سینیٹ میں خزانہ، داخلہ، قانون و عدل، دفاع، انسانی حقوق، کشمیر و گلگت بلتستان وغیرہ کے موضوعات سے متعلق پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں حکومتی اور حزب اختلاف کے اراکین کی مخصوص تعداد کے علاوہ وفاقی اکائیوں کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین سینیٹرز کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ایک سینیٹر 5 کمیٹیوں کا رکن بن سکتا ہے۔

سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرپرسنز کا انتخاب

سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینز اور چیئرپرسنز کے انتخاب کے لیے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس 2 جون بروز بدھ کو اسلام آباد میں ہوا۔ کمیٹیوں کے چیئرپرسنز کا انتخاب سینیٹ کے ضابطہ اخلاق اور ایوان کی کارروائی کے قواعد 184 (1) 2021 کے تحت رائے شماری سے کیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید متفقہ طور پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت دفاع کے چئیرمین منتخب ہوگئے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کو متفقہ طور پر قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چئیرپرسن منتخب کرلیا گیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے سینیٹر فیصل سبزواری قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چئیرمین اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر منظور احمد کاکڑ کو قائمہ کمیٹی برائے بیرون ملک پاکستانی اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا متفقہ چئیرمین منتخب کرلیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا مقبول احمد متفقہ طور پر قائمہ کمیٹی برائے کیبنیٹ سیکریٹریٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سید علی ظفر قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید  قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کے متفقہ طور پر چئیرمین منتخب کرلیے گئے۔

آزاد سینیٹر محمد عبدالقادر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم، پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو قائمہ کمیٹی برائے توانائی، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے ڈیوولوشن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر کامل علی آغا سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے گورنمنٹ اشورنسز (حکومتی یقین دہانی) کے متفقہ طور پر چئیرمین منتخب ہوئے۔

متعلقہ تحاریر