ملیر ڈیم سندھ حکومت کی توجہ کا منتظر

سندھ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ملیر ڈیم رواں سال مون سون بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت سے پانی کے مطالبے کا رونا رونے والی سندھ حکومت کے زیر استعمال ملیر ڈیم تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملیر ڈیم رواں سال مون سون کی بارشوں کا پانی محفوظ کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ مقامی کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ’ملیر ڈیم میں پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کھیت سوکھ رہے ہیں۔‘

سال 2020 میں جون سے اگست تک کراچی میں ہونے والی مون سون بارشوں کے سبب ملیر ڈیم لبالب بھر گیا تھا۔ کمزور پشتوں کی وجہ سے اسپیل وے بہہ گئے تھے جس کے باعث ڈیم سے پانی کاشتکاروں کو ملنے کے بجائے ضائع ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 4.8 فیصد مقرر

ایک سال گزرنے کو ہے مگر وفاق سے پانی کا رونا رونے والی سندھ حکومت نے ملیر ڈیم کی تعمیر نو پر توجہ نہیں دی۔ جبکہ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق رواں ماہ کسی بھی وقت مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔

کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا ملیر ڈیم تباہی کی داستان سنانے لگا ہے۔ ڈیم میں پانی نہ ہونے کے سبب کاشتکاروں اور مقامی افراد کو شدید پریشانی لاحق ہے۔

نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی افراد نے کہا ہے کہ پہلے بارشیں ہوتی تھیں تو پانی ڈیم میں جمع ہوتا تھا اور پھر یہاں سے پانی کنووں اور ٹیوب ویلز میں جاتا تھا مگر اس مرتبہ مون سون کی بارشوں کا پانی ضائع ہوجائے گا۔

مقامی کاشتکاروں نے نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیم میں پانی نہ ہونے کے سبب انہیں کھیتی باڑی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کھیت سوکھ گئے ہیں۔ اگر ڈیم کی تعمیر نو نہ کی گئی تو نوبت فاقوں تک پہنچ سکتی ہے۔

پانی کے معاملے پر 16 مئی کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ رمضان کے بعد سے سندھ کے حصے کا پانی روکا جارہا ہے جس کی وجہ سے کراچی کے لیے پانی کی ترسیل انتہائی کم ہوچکی ہے۔ ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور تھرپارکر کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ عمران خان پانی روک کر سندھ کی زمینوں کو بنجر کرنے کی کوششوں کا سلسلہ بند کریں۔

دوسری جانب 25 مئی کو سندھ اسمبلی میں 1991 کے معاہدے کے تحت پانی نہ ملنے پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔

صوبائی وزیر برائے آبپاشی سہیل انور سیال نے قرارداد کے موقع پر جارحانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پانی کے معاملے پر مخالفت کرنے والوں کے گھروں میں گھسیں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت وفاق سے پانی کا رونا روتی رہتی ہے مگر اپنے ڈیموں کی تعمیرنو پر توجہ نہیں دیتی ہے۔ اگر وفاق نے پانی چھوڑ بھی دیا تو اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم کہاں ہیں؟ ملیر ڈیم کے اسپیل وے بہہ گئے ہیں، اگر پانی آ بھی جاتا ہے تو سمندر برد ہو جائے گا۔ اس لیے سندھ حکومت پانی پر سیاست کرنے کے بجائے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دے۔ جو ڈیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں انہیں مون سون سے قبل جلد از جلد اصل حالت میں بحال کرے تاکہ پانی کا ذخیرہ ممکن ہوسکے۔

متعلقہ تحاریر