بابا بلھے شاہ کی زمین پر گالیوں کا کلچر ہو ہی نہیں سکتا

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر کے بیان پر سوشل میڈیا صارفین سیخ پا ہوگئے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر نے اپنی جھیپ مٹانے کے لیے گالیوں کو پنجاب کا کلچر قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کلچر تو وہ چیز ہے جسے آپ فخر کے ساتھ اوڑھ سکیں، دکھا سکیں اور پیش کر سکیں۔ بابا بلھے شاہ کی زمین پر گالیوں کا کلچر ہو ہی نہیں سکتا۔

دو روز قبل بجٹ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی اور شور شرابا ہوا تھا۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے مابین لڑائی بڑھی تو بات گالیوں تک جا پہنچی۔ اراکین قومی اسمبلی کے درمیان گالم گلوچ کی ویڈیوز اب بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن پر تنقید کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا یہی جمہوریت کا حسن ہے؟

تاہم اب مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر نے گالیوں کو پنجاب کی ثقافت قرار دے دیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شاید بھول گئے ہیں کہ پنجاب وہی شہر ہے جہاں سے بابا بلھے شاہ کے پاکیزہ نغموں کی گونج اٹھی اور یہیں سے ان کی شہرت بیرون ملک تک بھی پھیلی۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کا تعلق بھی پنجاب سے ہی تھا جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے مسلمانوں کی ہمت جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ پنجاب نے کئی دیگر ادیب اور نامور شخصیات پیدا کیں ہیں جنہوں نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نام اُجاگر کیا۔

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے روحیل اصغر کے بیان کو یکسر مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کا کلچر ماں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کرنا ہے، ان کے نام کی گالیاں دینا نہیں۔

ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر روحیل اصغر کا یہ بیان ہدف تنقید بنا ہوا ہے۔ کالم نگار نوشی گیلانی نے لکھا کہ صوفیائے کرام، اولیائے کرام، بابا بلھے شاہ اور حضرت شاہ حسین کی سرزمین پنجاب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ گالی پنجاب کا کلچر ہے۔‘ انہوں نے اس بیان پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔

دنیا نیوز کے اینکر پرسن اجمل جامی نے لکھا کہ گالی دینا ثقافت نہیں بلکہ بیماری ہے۔ اور گالی پر جواز پیش کرنا بیمار ذہن کی علامت ہے۔

احمد ندیم نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ گالیوں کا تعلق پنجاب کے کلچر سے نہیں بلکہ گھر کی تربیت سے ہوتا ہے۔

متعلقہ تحاریر