سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد کراچی میں احتجاج

نسلہ ٹاور اور الہٰ دین پارک کے متاثرین کا مطالبہ ہے کہ لیز جاری کرنے والے ذمہ داروں کو پکڑا جائے۔

سپریم کورٹ نے کراچی کی تمام سرکاری اراضی پر قائم تجاوزات کو ختم کرنے کا احکامات جاری کردیئے ہیں۔ عدالتی احکامات کے بعد کراچی میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ احتجاج کرنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پیسے دے کر یہ زمینیں خریدی ہیں۔ ہمارے پاس تمام لیز کے کاغذات موجود ہیں۔ ہماری دکانوں اور گھروں کو گرانے سے پہلے ان ذمہ داروں کو پکڑا جائے جنہوں نے ہمیں ان زمینوں کی لیز دی تھی۔‘

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ الہٰ دین پارک کو فوری اصل شکل میں بحال کیا جائے۔ تمام غیر قانونی تعمیرات گرا کر ملبہ فوری ہٹایا جائے۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) اور کمشنر کراچی دو روز میں کارروائی مکمل کر کے رپورٹ پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیے

نسلہ ٹاور سندھ حکومت کے لیے درد سر بن گیا

دو روز قبل سپریم کورٹ کے حکم پر انسداد تجاوزات مہم کے سلسلے میں پویلین اینڈ کلب اور ہل پارک میں قائم شاپنگ مال کو گرانے کے دوران پولیس کو شہریوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مزید برآں چیف جسٹس گلزار احمد نے شارع فیصل پر قائم نسلہ ٹاور کو گرانے کے احکامات دیتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) سے 3 ماہ کے اندر رپورٹ طلب کرلی ہے۔

شارع فیصل پر قائم نسلہ ٹاور کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی لگا کر یہ فلیٹ خریدے ہیں۔ ہمارے پاس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے جاری کردہ لیز کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ اگر یہ عمارت غیرقانونی ہے تو سب سے پہلے ایس بی سی اے کے ذمہ داروں کو پکڑا جائے جنہوں نے بلڈنگ کے مالک کو جگہ کی لیز جاری کی تھی۔

کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کی بھرمار پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شہر کے لیے ابھی تک ماسٹر پلان نہیں بنایا گیا ہے۔ ایس بی سی اے کے حکام پیسوں کے عوض کام کرانے میں مصروف ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے رفاحی پلاٹس پر قائم ساؤتھ سٹی اسپتال اور ضیاءالدین اسپتال کو بھی شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے اصل دستاویزات کے ساتھ جواب طلب کرلیا ہے۔

الہٰ دین پارک پر قائم تجاوزات گرانے کے موقع پر نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شہری نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ والے انتخابات کے وقت بھکاریوں کی طرح ووٹ مانگتے ہیں۔ یہ اراضی ہم نے پیسے دے کر خریدی ہے۔ ہم نے کوئی قبضہ نہیں کیا ہے، ہمارے پاس تمام کاغذات ہیں۔ جب ہمارے پاس کاغذات ہیں تو پھر ہماری عمارتوں کو کیوں توڑ رہے ہیں؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں متبادل جگہ دی جائے اور تعمیر کے لیے پیسہ بھی دیا جائے۔ وقت بھی دیا جائے اور وقت بھی کم نہ دیا جائے۔ جن لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں ان سے کچھ نہیں پوچھا جاتا، انہیں پکڑا جائے جنہوں نے اس علاقے کو فروخت کیا ہے۔

الہٰ دین پارک کے اطراف قائم گھروں کو گرائے جانے کے نوٹس پر احتجاج کرتے ہوئے ایک خاتون نے نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ یہاں 20، 30 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ ہمارے گھروں کو گرانے کے لیے نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں۔ پہلے حکومت کہاں تھی؟ ہم مر جائیں گے مگر اپنے گھروں کو گرانے نہیں دیں گے۔ کیا ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت کو اسی دن کے لیے ووٹ دیئے تھے؟ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کو گرانے سے بچایا جائے۔

متعلقہ تحاریر