جنسی زیادتی کے حوالے سے وزیر اعظم غلط نہیں

وزیر اعظم نے بےحیائی سے گریز کی طرف اشارہ کیا جس پر ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ چیخ اٹھا۔

ڈان نیوز کی نامہ نگار شمائلہ ماتری نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں جو کچھ بھی کہا وہ حقیقت میں غلط نہیں تھا، صرف نامکمل تھا۔

جنسی استحصال اور لباس کے مابین تعلق پر گرما گرم بحث ہوتی رہتی ہے۔ دونوں جانب سے دلائل اور گفتگو کی جاتی ہے۔ آزاد خیال میڈیا کی تصحیح کے لیے بھی یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کبھی بھی عصمت دری کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو میں انکے جوابات پر کسی حد تک اعتراض جائز ہے لیکن یہ بھی نظرانداز نہیں ہونا چاہیئے کہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کی جانب سے خواتین کو دیکھنے، ان کے عمل اور اس سے خواتین کے پہناوے کے تعلق کے حوالے سے وہ درست تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ معاشروں میں جسمانی نمائش اتنی خطرناک نہیں جتنی ایسی جگہوں پر ہے جہاں جسمانی نمائش کی سخت ممانعت ہے۔

شمائلہ ماتری نے لکھا کہ وزیر اعظم نے کہیں کسی پر عریانی کا الزام نہیں لگایا بلکہ بےحیائی سے گریز کی طرف اشارہ کیا، جس پر ہمارے سماج کا ایک طبقہ چیخ اٹھا۔ مغربی معاشروں میں سامنے آنے والی تحقیق میں بعض مجرمان نے لباس کے انتخاب کو عصمت دری کے لیے اکسانے یا جنسی طور پر دستیاب ہونے کے اشارے کے طور پر دیکھا جوکہ وزیر اعظم کی بات کی تائید ہے۔

سائنس بھی جنسی تشدد کے جواز کے طور پر آج متعدد روابط کی جانب اشارہ کرتی ہے، جس میں مجرم کی نیوروفزیولوجی ، شراب نوشی ، شخصیت، صنف سے متعلق رویہ، گھر میں خواتین کے ساتھ رویہ اور میڈیا پر فحش نگاری شامل ہے۔ ہم اس سے مکمل انکار نہیں کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کا اگلا وزیراعظم بھی کوئی نیازی ہوگا؟

پین اسٹیٹ کے رچرڈ فیلسن اور ماؤنٹ ہولیوک کالج کے رچرڈ مورن کہتے ہیں کہ امریکا میں جن تین میں سے ایک خواتین پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے، وہ نوجوان ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مردوں کی جانب سے حملے کے جواز کے طور پر جنسی تسکین کے مقصد کو خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بیشتر زیادتی کرنے والے متاثرہ افراد کو جنسی تعلقات پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ وہ جنسی تعلقات چاہتے ہیں۔

ہیوسٹن یونیورسٹی کے بیورلی میکفیل کا کہنا ہے کہ عصمت دری متعدد محرکات جیسے جنسی خوشنودی، انتقام ، تفریح ، طاقت اور مردانگی کے حصول کی کوششوں کی وجہ سے رونما ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ بھی کہا وہ حقیقت میں غلط نہیں تھا، صرف نامکمل تھا۔ اگر ہم اس معاملے پر موثر حکمت عملی تیار کرنا چاہتے ہیں تو جنسی  حملے کے پیچھے چھپے عوامل کو سمجھنا ضروری ہے اور اصلاح شدہ پولیس ، بچاؤ اور جوابی کارروائی کے اقدامات ،معاشرتی شعور،قوانین و عدالتیں اور سزاوں کے بارے میں بیداری پروگرام قائم کرنا بھی ضروری ہے۔

ہمیں ایسے معاملات پر مباحثوں کو سائنسی حقائق اور نظریے کی پرتوں میں ڈھانپنا ہوگا۔ بصورت دیگر جاہل معاشروں میں جسمانی نمائش کرنے والوں کی طرح ایسے معاملات پر رائے دینے والے عوامی سطح پر قابل سزا ہی ٹھہریں گے۔

متعلقہ تحاریر