اسلام آباد جنسی تشدد کیس، پولیس نے مضبوط مقدمہ بنایا ہے

عثمان مرزا تشدد کیس میں تعزیرات پاکستان کے تحت بھتہ خوری، جنسی تشدد اور ڈکیتی کی دفعات کو بھی شامل کرلیا گیا۔

اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس میں عثمان مرزا جنسی تشدد وائرل ویڈیو کیس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے لیے ایک امتحان بن گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس ملزم عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت بھتہ خوری، جنسی زیادتی اور ڈکیتی کی دفعات بھی شامل کرلی ہیں۔

نئی دفعات شامل کرنے سے جنسی تشدد وائرل ویڈیو کیس مزید مضبوط ہوگیا ہے۔ ان دفعات کو شامل کرنے سے ملزمان کو سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عثمان مرزا کی نس بندی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا

پیر کو اسلام آباد پولیس ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) افضل احمد کوثر نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عطاء الرحمان اور ایس ایس پی آپریشنز سید مصطفیٰ تنویر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔

انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ محمد عثمان مرزا ، فرحان خان ، عطا رحمان ، ادریس بٹ ، عمر بلال اور محیب خان سمیت چھ ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ اس جنسی تشدد کیس میں پی پی سی کی مزید دفعات شامل کی گئیں ہیں۔ ان میں بھتے کی دفعہ اے-384 ، جنسی زیادتی کی دفعہ ڈی-375 ، اور جنسی تشدد کی دفعہ 377 سمیت اے-375، 342، 114 ، 395 ، اے-496 کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں نئی ​​دفعات کو کیس میں نئی ​​پیشرفت کی روشنی میں شامل کیا گیا ہے۔ جوڑے کے بیانات بھی قلمبند کردیئے گئے ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ عثمان مرزا سے برآمد ہونے والے موبائل فونز کو فرانزک آڈٹ کے لیے بھیجا جارہا ہے اور اس کیس سے وابستہ مزید حقائق کو منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عثمان مرزا کے خلاف سہالہ پولیس اسٹیشن میں ایک اور ایف آئی آر بھی درج ہے اور دیگر متاثرین کو بھی آگے آنے کی تاکید کی۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ جوڑے کے مطابق عثمان مرزا نے ان سے بھتہ بھی لیا۔ پولیس اس بات کی تحقیق کررہی ہے کہ ویڈیو انٹرنیٹ پر کس نے اپ لوڈ کی، ایف آئی اےکی سائبر سیل سے مدد لی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی اس واقعے میں ملوث ملزمان کی کل تعداد کے بارے میں بتانا مشکل ہوگا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس حقائق تک پہنچنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے تاکہ مجرم کسی بھی معاملے میں سزا سے بچ نہ پائیں۔ اس کیس میں شامل دفعات کی روشنی میں موت سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عثمان مرزا کا کیس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت اختیار کرگیاہے۔ اسلام آباد میں جتنے بھی گیسٹ ہاؤسز ہیں وہاں پر مختلف شہریوں سے ملازمت کے لیے آئی ہوئی خواتین رہائش اختیار کرتی ہیں، فیملیز اور جوڑے آکر رہتے ہیں۔ ان گیسٹ ہاؤسز کو محفوظ بنانا ہوگا تاکہ مستقبل میں کوئی ایسا کیس سامنے نہ آئے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گیسٹ ہاؤس میں رہائش اختیار کرنے والے جوڑے کے ساتھ گھناؤنی حرکت اور زیادتی کے بعد ملزم عثمان مرزا کی کیمیکل ٹریٹمنٹ کے ذریعے نس بندی کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس میں لڑکے اور لڑکی پر تشدد کرنے والے عثمان مرزا کی ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی تھی کہ اس کیس کو لوگوں کے لیے مثال بنایا جائے۔

کرنے والے اقدامات:-

قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت سمیت تمام صوبائی حکومتوں میں بنائے گئے گیسٹ ہاؤسز کو متعلقہ تھانوں میں رجسٹرڈ کیا جائے۔

گیسٹ ہاؤسز کے مالکان اور ان کے ملازمین کا مکمل ڈیٹا متعلقہ تھانوں کے پاس رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔

جو بھی خاتون ، جوڑا یا فیملی آکر گیسٹ ہاؤسز میں رہائش اختیار کرتی ہے ان کی انٹری گیسٹ ہاؤس کے ساتھ ساتھ متعلقہ تھانے میں ہونے چاہیے۔

گیسٹ ہاؤسز تمام مہمان جب رخصت ہوں  تو متعلقہ تھانے میں گیسٹ ہاؤس کے مالک اور ملازمین کے اچھے یا برے رویے کا اندراج کر کے جائیں۔

وفاق کے ذریعے تمام صوبائی حکومتوں کا اس بات کا پابند کیا جائے کہ گیسٹ ہاؤسز کا مکمل ڈیٹا تیار کیا جائے۔

گیسٹ ہاؤسز میں فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے، گیسٹ ہاؤسز میں رہائش اختیار کرنے والی خواتین اور فیملیز کے اوقات کار مقرر کیے جائیں، اور انتظامیہ ان سے سختی سے عمل درآمد کرانے کی پابند ہو۔

متعلقہ تحاریر