افغان طالبان کو پروگرام میں مدعو کرنے پر سلیم صافی پر تنقید

ناقدین کے مطابق معصوم شہریوں کا خون بہانے والوں کو پروگرام میں بلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

معروف اینکر پرسن سلیم صافی اپنے پروگرام جرگہ میں ترجمان تحریک طالبان افغانستان سہیل شاہین کو بلانے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ معصوم شہریوں کا خون بہانے والوں کو ٹی وی پروگرام میں بلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اتوار کے روز سلیم صافی نے ترجمان افغان طالبان کو جیو نیوز پر نشر ہونے والے پروگرام جرگہ میں بلایا تھا۔ اینکر پرسن نے سہیل شاہین سے افغانستان کی حکومت سے مذاکرات سمیت خواتین کے حقوق پر سخت سوالات کیے۔

تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب پروگرام کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما خادم حسین نے لکھا کہ خودکش دھماکے کرنے والے اور تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑانے والے طالبان اب ٹی وی چینلز پر براجمان نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ سلیم صافی نے اپنے پروگروام میں افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کے لیے کسی افغان حکومت کے نمائندے کی رائے نہیں لی۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کی پیش قدمی، امریکی جریدے کے اشارے

خادم حسین  کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین کے علاوہ اے این پی کے ایمل ولی خان کو بھی دعوت دی تھی لیکن وہ اپنی مصروفیات کے باعث پروگرام میں نہیں آئے۔ سلیم صافی نے اپنی ٹوئٹ میں اے این پی کی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کاپی بھی شیئر کی۔ اینکر پرسن نے باور کرایا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ میڈیا نے نہیں بلکہ اے این پی کی حکومت نے کیا تھا۔

اینکر پرسن نے مزید کہا کہ پاکستانی میڈیا پر اے این پی نہیں بلکہ منظور پشتین جیسے قوم پرست رہنماؤں پر پابندی ہے۔ اے این پی تو بلوچستان میں حکومت کی اتحادی ہے۔

اس وقت جب دنیا کی بڑی طاقتیں افغان طالبان سے مذاکرات کررہی ہیں اور خبر رساں ادارے اور ٹی وی چینلز انہیں اپنے پروگرامز میں مدعو کررہے ہیں، ایسے میں پاکستانی صحافی پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔ چند سوشل میڈیا صارفین کا خیال ہے کہ افغانستان کے اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت اور انہیں پروگرامز میں بلانے سے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور افغانستان میں امن کی راہیں ہموار ہوں گی۔

متعلقہ تحاریر