تین اہم پاکستانی شخصیات کی ملک کے لیے بےمثال خدمات

نیوز 360 کی ٹیم یوم آزادی پر عبد الستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی اور جہانگیر خان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

پاکستان کا 75 واں یوم آزادی ڈائمنڈ جوبلی کے طور پر منایا  جارہا  ہے۔  آزادی  کے  اتنے  سال  گزر  جانے  کے  بعد  آج  جب  ہم  ان  افراد  کی  طرف  نظر  کرکے  دیکھتے  ہیں  جنہوں  نے  وطن  عزیز  کے  لیے  اپنی  بے  پناہ  خدمات انجام  دیں  تو  کئی  نام  ذہن  میں  آتے  ہیں  تاہم  3 ایسی  شخصیات  ہیں  جن  کی  خدمات  کا  اعتراف  نہ  صرف پاکستانی  کرتے  ہیں بلکہ  پوری  دنیا میں  ان  کا  ایک  اہم  مقام اور  نام ہے۔

عبد الستار ایدھی

محسن  انسانیت  عبد الستار ایدھی  کی  شخصیت  کسی  تعارف  کی  محتاج  نہیں  ہے۔  انہوں  نے کئی لاوارث  بچوں  کو  اپنایا  اور  انہیں  جینے  کا  مقصد  دیا۔  نومولودوں  کو  جھولے  سے  اٹھا  کر  زندگی  کی  روشنی دی۔ عبدالستار ایدھی  کی  پیدائش 1928 میں ہندوستان میں گجرات  کے علاقے  بانٹوا میں ہوئی۔ ان  کے  والد  پیشے  سے  تاجر تھے۔  ایدھی  صاحب  سن  1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے۔  کم  عمری میں ہی ایدھی  صاحب نے خود سے پہلے لوگوں کی مدد کرنے  کا  ہنر سیکھ لیا تھا۔  انہوں نے صرف 5 ہزار روپے سے فلاحی مرکز ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی۔

Haberler

ایدھی ایمبولینس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے جوکہ پاکستان کے ہر چھوٹے  سے  چھوٹے  شہر میں لوگوں کی  مدد  کرنے میں  مصروف عمل  ہے۔ سن 1997 میں ایدھی  ایمبولینس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔

عبدالستار ایدھی انتقال سے  پہلے  بھی  تقریباً 20 ہزار بچوں کی سرپرستی کررہے تھے۔ مرحوم مرنے کے بعد بھی اپنی آنکھیں عطیہ کرکے دکھی انسانیت کی خدمت کرگئے۔  چھ  دہائیوں تک انسانیت کی بلاتفریق خدمت کرنے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی جناب عبد الستار ایدھی کو اس  فانی  دنیا  سے  کوچ  کیے 5 سال  بیت گئے ہیں تاہم  وہ  آج بھی پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

یہ  بھی  پڑھیے

عائشہ ملک پاکستان کی پہلی خاتون چیف جسٹس بن سکتی ہیں

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی

سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی)  کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو  دنیا  مانتی  ہے۔  وہ  پاکستان کے ایک ایسے  مسیحا ہیں  جنہیں  کرشمہ ساز کہا  جاتا  ہے۔  صحت  کے  شعبے  میں  ان  کی  خدمات  بےمثال  ہیں۔  ایس آئی یو ٹی پاکستان میں گردوں کے ٹرانسپلاںٹ  کا واحد  ادارہ  ہے۔ ایس آئی یو ٹی میں گردے کی پیوندکاری کے ہر سال قریب 555آپریشن ہوتے ہیں   جوکہ  مفت  میں  صرف  اور  صرف  میرٹ  کی  بنیاد  پر  کیے  جاتے  ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی  کی  ٹیم  میں مختلف  فرقوں  سے  تعلق  رکھنے  والے  ڈاکٹرز  موجود  ہیں۔  ہندو  ڈاکٹرز  بھی  ان  کی  ٹیم  کا  حصہ  ہیں۔  دنیا  بھر  میں  مقبولیت  کے  جھنڈے  گاڑھنے  والے  ڈاکٹر  رضوی  کا  طرز  زندگی  نہایت  سادہ  ہے۔

ڈاکٹر  ادیب  رضوی  کو  ویسے  تو  بے شمار  عالمی   ایوارڈز  دئیے گئے  لیکن  ان  کی  خدمات  کے  اعتراف  میں  دیا  جانے  والا  ریمون میگسیسے ایوارڈ  سرفہرست  ہے۔

The Express Tribune

جہانگیر خان

اسکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان  کو دنیا کے سب سے کم عمر ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز  حاصل  ہے۔ انہوں  نے اپنے کھیل  سے دنیا  میں  پاکستان  کا  نام  روشن  کیا۔ ان  کی وطن  عزیز  کے  لیے  دی  گئی خدمات  کا  اعتراف  کر  کوئی  کرتا  ہے۔ جہانگیر خان کے لیے ورلڈ چیمپیئن بننا اس  خواب کی تعبیر تھا جسے ان کے بڑے بھائی طورسم خان نے دیکھا تھا۔ جہانگیر خان کے لیے بھائی کی موت زندگی  کا  سب سے بڑا دھچکا تھی، جس نے ان کی دنیا بدل دی۔ اتفاق کہیے یا  کچھ  اور، جس روز جہانگیر خان ورلڈ چیمپیئن بنے اس سے ٹھیک 2 سال قبل  یعنی 28 نومبر 1979 کو طورسم خان دنیا  سے  کوچ  کرگئے تھے۔ طورسم خان  کا  انتقال ایڈیلیڈ میں آسٹریلین اوپن کا میچ کھیلتے ہوئے  ہوا  تھا  جب  وہ اسکوش  کورٹ  میں اچانک  گر پڑے تھے  اور پھر  کبھی  اٹھ  نہ  پائے۔  بھائی  کی  موت  نے  جہانگیر خان  کو ایک  الگ  ہی  طاقت  دی  اور انہوں  نے  چیمپیئن بن  کر  ہی  سانس  لیا۔

Club Pakistan

جہانگیر خان کو  لگاتار  555  میچز  جینے  کا  اعزاز  حاصل  ہے۔ 1981 سے  1986 کے درمیان جہانگیر خان ناقابل تسخیر رہے۔ یہ ایک  ایسا  ریکارڈ ہے  جسے  اسکواش  کے  میدان  میں  آج  تک  کوئی  توڑ  نہیں  پاتا  ہے۔ پاکستان کے لیونگ  لیجینڈ 1982 سے 1991 کے درمیان 6مرتبہ ورلڈ اوپن اور 10مرتبہ برٹش اوپن مقابلوں میں  فتح  یاب  ہوئے  ہیں ۔

اسکواش چیمپیئن کو اپنی ابتدائی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ کا  سامنا کرنا  پڑا۔ 12 سال کی عمر تک ان کے ہرنیا کے 2  آپریشن ہو چکے تھے۔  جہانگیر خان کے کریئر میں 3 شخصیات کا اہم کردار نظر  آتا ہے جن میں ان کے والد روشن خان، چچا زاد بھائی اور  کوچ  رحمت خان اور  بڑے بھائی طورسم خان شامل ہیں۔  جہانگیرخان اپنے انٹرویوز  میں  بتاتے ہیں کہ پختون روایات کے  باعث والدہ ہمیشہ پردے میں رہتی  تھیں۔ انہوں  نے کبھی بھی اسکواش کورٹ آکر ان  کا  کھیل  نہیں دیکھا تھا۔

متعلقہ تحاریر