اردو زبان میں مرثیے کی ابتداء

مرثیہ حضرت امام حسینؓ اور کربلا کے دیگر شہداء کے فضائل اور ان پر پڑنے والی مصیبتوں کے ذکر کو کہتے ہیں۔

مرثیے  کی تاریخ عرب کی شاعری  جتنی  پرانی  ہے۔   اردو  زبان  کی  بات  کریں  تو  ملا وجہی کے بعد اس صنف میں کئی لکھنوی شعراء نے طبع آزمائی کی جن میں میر انیس اور دبیر شامل ہیں۔

مرثیہ اردو شاعری کی ایک بہت قدیم اور تاریخی صنف ہے ۔ اگر اس لفظ کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ عربی زبان کے لفظ ’’رثا‘‘ سے وجود میں آیا ہے جس کے معنی ’’انتقال کر جانے والے کا اچھے الفاظ میں ذکر‘‘ ہیں۔ اگر شاعری کی زبان میں بات کی جائے تو مرثیہ وہ صنفِ سخن ہے جس میں فوت ہونے والی کسی شخصیت کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اس میں غم کا عنصر غالب ہوتا ہے۔

اگر زبان و بیان کے حوالے سے روایات کا جائزہ لیا جائے تو مرثیہ حضرت امام حسینؓ اور کربلا کے دیگر شہداء کے فضائل اور ان پر پڑنے والی مصیبتوں کے ذکر کو کہتے ہیں۔ اسلامی معاشروں میں اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی مرثیے کا تصور اور رواج بہت عام ہے۔

یہ  بھی  پڑھیے

وزیراعلیٰ سندھ نے محرم الحرام پر سیکیورٹی خدشات کا اظہار کردیا

کہا جاتا ہے کہ اردو میں مرثیے کی ابتدا برصغیر میں دکن کے مقام سے ہوئی۔ تاریخی کتابوں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ عادل اور قطب شاہی مملکتوں کے بانی حکمران امامیہ فرقے سے تعلق رکھنے کے باعث مرثیہ خوانی کا شوق رکھتے تھے اور ان کے یہاں اس روایت کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔

ملا وجہی کو اردو زبان میں پہلے مرثیہ گو کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد اس صنف میں کئی لکھنوی شعراء نے طبع آزمائی کی جن میں میر انیس اور دبیر شامل ہیں۔ میر انیس اور دبیر نے مرثیے کو وہ مقام عطا کیا کہ جس کی دنیا آج بھی قائل ہے۔ ان کے یہاں واقعہ کربلا اور اہل بیت کے مصائب مرثیے کا بنیادی خیال تصور کیے جاتے ہیں۔

مرثیہ گوئی کے لیے تاریخ، فکر، فلسفے اور فقہی شعور کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر مرثیہ گوئی کا تصور مشکل سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر