اب قائمہ کمیٹی ملکی مسائل نہیں چوہوں پر بات کرے گی

اراکین پارلیمان نے سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چوہوں کے خاتمے کے لیے دیگر ممالک سے رہنمائی لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

قومی اسمبلی کے ارکان نے پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں چوہوں کی موجودگی اور ارکان پارلیمنٹ کو کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر احتجاج اور شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں صفائی ستھرائی کی صورتحال بہتر ہونے تک چوہوں کا خاتمہ ناممکن ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں چوہوں کی بازگشت

قومی اسمبلی کی ہاؤس اینڈ لائبریری کمیٹی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کی زیر صدارت ہوا جس میں قومی اسمبلی کے ارکان نے پارلیمنٹ لاجز میں اراکین کو چوہوں کے کاٹنے کے بڑھتے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پنجاب میں سیاسی کشمکش کا فیصلہ اب بلے اور گیند پر ہوگا ؟

اراکین کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کے خاتمے کے لیے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور صفائی کے انتظامات انتہائی غیر اطمینان بخش ہیں۔

کمیٹی ممبران کا کہنا تھا کہ چوہے پارلیمنٹ لاجز میں رہائش پذیر اراکین پارلیمنٹ کے قیمتی سامان کو بھی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ بجلی کی تاروں کو بھی کاٹتے ہیں، جس سے شارٹ سرکٹ کا خطرہ ہوسکتا ہے، جو کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

کمیٹی ممبران نے کہا کہ سی ڈی اے پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکا ہے،انہوں نے کہا کہ چوہوں کے خاتمے کے لیے دیگر ممالک میں اپنائے جانے والے طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

 پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے بتایا قومی اسمبلی اجلاس میں 11 اگست کو شکایت کی تھی کہ چوہے نے پارلیمنٹ لاجز میں انہیں سوتے میں کاٹ لیا جبکہ 5 برس قبل پیپلزپارٹی کی ہی خاتون رکن قومی اسمبلی مسرت رفیق کو بھی چوہے نے کاٹ لیا تھا۔

پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کی موجودگی کا سنگین مسئلہ

پارلیمنٹ ہاؤس اور سینیٹرز و اراکین قومی اسمبلی کی سرکاری رہائش گاہ پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں کی موجودگی کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر سنگین صورت اختیار کرگیا۔ چوہے ارکان پارلیمنٹ کے بیڈ رومز تک جا پہنچے ہیں۔

رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی جو پارلیمنٹ لاجز کے سوٹ نمبر 402 ایچ میں رہائش پذیر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ رات کو سو رہی تھیں کہ چوہے نے انہیں کاٹ لیا۔ شاہد رحمانی نے بتایا کہ چوہے کے کاٹنے پر انہیں حفاظتی انجیکشن لگوانا پڑا تھا۔

انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آخر چوہوں سے ہماری جان کب چھوٹے گی، اس کا نوٹس لیا جائے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ چوہے پکڑنے کے لیے فوری اقدامات کریں اور صفائی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے اقدامات کریں۔

پیپلز پارٹی کی مسرت رفیق بھی چوہے کا نشانہ بنی تھیں

پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مسرت رفیق نے مئی 2016 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کے وہ پارلیمنٹ لاجز میں رہائش پذیر ہیں جہاں انھیں چوہے نے کاٹ لیا۔ جمعیت علمائے اسلام ف کی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں بڑے سائز کے چوہے موجود ہیں جو کئی مرتبہ بچوں پر حملہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپارٹمنٹس میں چوہوں کا داخلہ روکنے کے لئے انہیں سوراخ اور کھلی جگہوں کو باقاعدہ بند کرنا پڑا۔

چوہے رکن اسمبلی کا پستے اور کاجو کھا گئے

مسلم لیگ نواز کی اس وقت کی رکن قومی اسمبلی کرن حیدر نے  بتایا تھا کہ ‘چوہوں نے ان کے پستے اور کاجو کھا لیےتھے۔’

چوہوں کی موجودگی اور ارکان پارلیمنٹ کی برسوں سے دہائی

پارلیمنٹ ہاوس جہاں سینٹ اور قومی اسمبلی جیسے اہم ترین اداروں کے اجلاس ہوتے ہیں، وہاں اکثر بڑے سائز کے چاہے دندناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ مسلہ چند روز کا نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے چوہوں کی موجودگی نے پارلیمنٹرینز کو پریشان کر رکھا ہے۔

پارلیمنٹ۔ چوہے پکڑنے کی خصوصی مہم اور ساڑھے چھ لاکھ کا ٹھیکہ

پارلیمنٹ ہاؤس میں چوہے پکڑنے کی مہم پانچ برس قبل 2016 میں  شروع کی گئی تھی اور اسی برس دسمبر میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے نے پارلیمنٹ کے چوہے پکڑنے کا ٹھیکا ایک  نجی کمپنی کو دیا تھا، جس نے 7 ماہ میں مجموعی طور پر 430 چوہے پکڑے، جن میں وزیراعظم کے چیمبر سے پکڑا جانے والا چوہا بھی شامل تھا۔

پارلیمنٹ ہاؤس سے چوہے پکڑنے کا سالانہ ٹھیکہ ساڑھے 6 لاکھ روپے میں دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق جون 2016 کو 236 چوہے پکڑے گئے، جولائی میں 42، اگست میں 34، ستمبر میں 34، اکتوبر میں 32، نومبر میں 28 اور دسمبر میں 24 چوہے پکڑے گئے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں چوہوں کے خلاف مہم سے بظاہر چوہوں کی تعداد میں کمی آئی تھی مگر مسلہ کا مستقل حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ چوہوں کے انسداد کے ماہرین کا کہنا تھا کہ چوہوں کی موجودگی کی بنیادی وجہ کیفے ٹیریا اور ہر کمیٹی روم سے متصل باورچی خانے ہیں جبکہ اسپیکر ، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سمیت اہم افسران کے دفاتر سے ملحقہ کچن سے بھی انہیں خوراک دستیاب ہوتی ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں ہزاروں چوہے ہیں

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی میں 2018 کو پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل(پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف ظفر نے انکشاف کیا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں کئی ہزار چوہے موجود ہیں اور خصوصی سروے میں یہ تعداد سامنے آئی تھی۔

ڈاکٹر یوسف ظفر نے چوہے ختم کرنے کے لیے سی ڈی اے کو خصوصی منصوبہ بناکر دیا ہے اور سی ڈی اے کو چوہا کنٹرول سیل قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو ڈی گئی بریفنگ میں چیئرمین پی اے آر سی کا کہنا تھاکہ پارلیمنٹ انتظامیہ کی درخواست پر چوہوں کی تعداد جانچنے کیلیے خصوصی سروے کیا گیا جس میں یہ تعداد سامنے آئی تھی، پارلیمنٹ کے کمروں اور کیفے ٹیریا میں بھی چوہے موجود ہیں، جب تک چوہوں کے لئے خوراک دستیاب ہے، یہ ختم نہیں ہوسکتے۔

جب چوہوں نے ساؤنڈ سسٹم کتردیا

ہارلیمنٹ ہاؤس میں دو برس قبل چوہوں نے کمیٹی روم کے ساؤنڈ و ریکارڈنگ سسٹم کی تاریں کتردی تھیں جس کے سبب قائمہ کمیٹی اجلاس کو دوسرے کمرے میں منتقل کرنا پڑا تھا۔

پارلیمنٹ لاجز:کوئی رکن چوتھے فلور پر رہنے کو تیار نہیں، چئیرمین کمیٹی

سینیٹ ہاوس کمیٹی کے اکتوبر 2018 کا اجلاس کو چیرمین سلیم مانڈوی والا کے زیر صدارت ہوا تھا جس میں پارلیمنٹ لاجز میں چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کی موجودگی پر کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔؎

چیرمین کمیٹی نے تھا کہ یہ کیسے چوہے ہیں جو کسی سے نہیں مارے جاتے۔ ہمیں درخواستں موصول ہورہی ہیں کہ پارلیمنٹ لاجز کے چوتھے فلور پر بہت سارے اور خطرناک چوہے موجود ہیں اور کوئی پارلیمنٹرین چوتھی منزل پر فلیٹ لینے کو تیار نہیں. اس لیے یہ کمیٹی فوری طور پر اس معاملے کو حل کرنے کی ہدایت کرتی ہے.

پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز میں برسوں گزرنے کے باوجود چوہوں کی موجودگی کے مسئلہ کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔

متعلقہ تحاریر