عام انتخابات وقت سے پہلے ہی متنازع ہونے کا امکان

اپوزیشن جماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز مسترد کردی ہے۔

الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز مسترد کرتے ہوئے اس پر 37 اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے معاملے پر عام انتخابات وقت سے قبل ہی متنازع ہورہے ہیں۔

وفاقی حکومت نے آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے قانونسازی کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی پر اس پر اعتراضات اٹھا لیے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے تفصیلی رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کروائی گئی ہے جس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اس پر 37 اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ میشن کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر دیکھا نہیں جاسکتا جس کے باعث دھاندلی کو روکنا ممکن نہیں ہے جبکہ کسی بھی تنازع کی صورت میں کوئی شواہد بھی جمع نہیں کئے جاسکتے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال سے کثیر رقم خرچ ہوگی لیکن پھر بھی انتخابات کی ساکھ اور شفافیت مشکوک رہنے کا امکان ہے اس لیے عام انتخابات میں اس کا استعمال ممکن نہیں۔

الیکشن کمیشن کے اعتراضات پر سیاسی تجزیہ نگار عام انتخابات سے قبل ہی اسے متنازع ہونے کا امکان ظاہر کررہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن کے اعتراضات پر اب عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ سے ضمنی انتخاب تک الیکشن کمیشن کی کارکردگی

انہوں نے کہا کہ اب اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت زبردستی ای وی ایم  کا استعمال کرواتی ہے اور عام انتخابات بھی جیت جاتی ہے تو نتائج کو کوئی بھی جماعت تسلیم نہیں کرے گی اور اگر الیکٹرانک ووٹنگ کے سوائے انتخابات ہوتے ہیں اور اس میں کوئی اور جماعت زیادہ سیٹس حاصل کرتی ہے تو تحریک انصاف کی جماعت انہیں تسلیم نہیں کرے گی۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو سمجھداری سے کام لیتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر اپوزیشن رہنماؤں اور الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لینا ہوگا یا پھر انہیں اس مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال ہی ترک کرنا ہوگا تا کہ 2023 کے انتخابات کو متنازع ہونے سے بچایا جا سکے۔

متعلقہ تحاریر