حقوق نسواں کے علمبردار سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تعیناتی کےخلاف
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے جسٹس عائشہ ملک کا نام سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تجویز کیا گیا تھا
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں بطور جج تقرری کا معاملہ چار ووٹ ان کے حق اور چار ان کی مخالفت میں آنے کے بعد بغیر کسی نتیجے کے عارضی طورپر ختم ہوگیا۔
جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں بطورجج تقرری کے کیلئے سپریم جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمد کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے پرغورہواان کی تعیناتی کے حق اور مخالفت میں آٹھ ممبران میں سے چار نے ان کے حق میں جبکہ چار ممبران نے ان کی تعیناتی کے خلاف ووٹ دیا جس کے باعث معاملہ چار چار سے ٹائی ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیے
جونیئر جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پر عدلیہ میں کشمکش والی صورتحال
سپریم جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے اور ان کی جانب سے نئی تقرری کے حوالے سے اجلاس میں کوئی رائے بھی سامنے نہیں آئی اور سپریم کورٹ میں بطورجج تقرری کا معاملہ چار ووٹ ان کے حق اور چار ان کی مخالفت میں آنے کے بعد بغیر کسی نتیجے کے عارضی طورپر ختم ہوگیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن ججز کی جانب سے جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں بطور ججز تقری کی مخالفت کی گئی ہے وہ انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ حقوق نسواں کے بھی علمبردارسمجھے جاتے ہیں ۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کیلئے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہےجو عدالت عظمیٰ کیلئے ہائیکورٹ کے جج کے نام کی منظوری دیتا ہے جب کہ جسٹس عائشہ ملک کے نام کی بھی چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے سفارش کی گئی تھی تاہم تکنیکی طور پر جسٹس عائشہ کا نام سپریم کورٹ میں بطور جج تقرری کے لیے فی الحال مسترد کردیا گیا ہے۔