نسلہ ٹاور ایک ماہ میں گرا دیا جائے، سپریم کورٹ کا حکم

عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ شہری بغیر جائزہ لئے پراپرٹی خریدیں گے تو کیا پیسے ہم دلوائیں گے کیا؟

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نسلہ ٹاور گرانے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نسلہ ٹاور خالی کرانے کی ایک ماہ کی مدت دے دی ہے، جبکہ اس موقع پر عدالت کے احاطے کے باہر بحریہ ٹاؤن میں پلاٹوں کی بکنگ کرانے والے شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ منیر اے ملک نسلہ ٹاور کی جانب سے بحثیت وکیل پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

لینڈ مافیا منظم انداز میں غیر قانونی عمارات کی تعمیر میں ملوث

سماعت کے آغاز پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ میں کبھی عدالت کو مس گائیڈ نہیں کروں گا، یہ کیس سندھ حکومت اور نہ ہی سندھی مسلم سوسائٹی کا ہے بلکہ وفاقی حکومت کا ہے۔ سندھی مسلم کے پاس کوئی لیز ہی نہیں ہے۔ تاہم ہمارے ٹائٹل ڈاکومنٹ سندھی مسلم کے پاس ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ مجھے پانچ منٹ سن لیں پھر آپ بھلے توڑنے کا آرڈر کردیں، عدالت سندھی مسلم سوسائٹی کو تو نوٹس دیں۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ہم سندھی مسلم سوسائٹی کو کیوں نوٹس دیں۔ سندھی مسلم کے پاس تو خود کوئی ڈاکومنٹ نہیں ہے۔  سندھی مسلم سوسائٹی سڑک کسی کو نہیں دے سکتی ہے۔ آپ اپنا ٹائٹل ڈاکومنٹ دیکھا دیں۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ سروس لین پر کوئی قبضہ نہیں کیا گیا ہے، کمشنر کراچی کبھی وہاں گئے ہی نہیں مختیار کار اور ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پر انحصار کررہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ جو دیوار وہاں بنی ہوئی وہ کمشنر صاحب نے  گرائی نہیں ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کو بھی ہدایت کردی ہیں۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ ابھی جاکر اس دیوار کو گرا دیں۔

ایڈووکیٹ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بھی حقوق ہیں ابھی کمشنر مقرر کرکہ انسپیکشن کرالیں۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ سات سو اسی گز کا پلاٹ ایک ہزار گز سے اوپر کیسے ہوگیا۔

وکیل نسلہ ٹاور کا کہنا تھا کہ شاہراہ فیصل دونوں اطراف میں لوگوں کو اضافی زمین دی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جس بندے کو اختیار ہی نہیں ہے وہ کیسے دے سکتا ہے، کمشنر نے اپنے دستخط کے ساتھ رپورٹ دی ہے وہ اپنی رپورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، سب چھوڑیں آپ اپنا ٹائٹل ڈاکومنٹ دیکھا دیں،آپ نے بہت اچھی طرح اپنے کیس میں دلائل دئیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کچھ نہیں ہوتا ہے یہاں نالے پر بیس منزلہ عمارتیں بن جاتی ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ یہ کوئی پھانسی کا کیس نہیں ہے انکروچمنٹ کا کیس ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے یہ ایک دلچسپ کیس ہے، سات سو اسی گز کا سائٹ پلان دے دیں ۔

وکیل نسلا ٹاور کا کہنا تھا کہ وہاں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں، ہم نے وفاقی حکومت سے زمین خریدی ہے قبضہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی اور سندھی مسلم سوسائٹی کو نوٹس جاری کرکہ اصل لے آوٹ پلان طلب کیا جائے۔ متعدد عمارتیں شاہراہ فیصل پر بنی ہوئی ہیں اسی طرح سے، اسی طرح 23 پلاٹس اور بھی الاٹ کئے گئے ہیں۔

ایڈووکیٹ منیر اے ملک کا کہنا تھا عدالتی حکم سے الاٹیز گھر سے بے گھر ہو جائیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے الاٹیز کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا الاٹیز کے پاس کوئی ٹائٹل ڈاکومنٹ ہے؟۔

اس پر چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ بغیر جائزہ لئے پراپرٹی خریدیں گے تو پیسے ہم دلوائیں گے کیا ؟

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے مالکان اور الاٹیز کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کمشنر کراچی کواپنے 16 جون کے حکم پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس آئندہ سماعت تک کے لیے ملتوی کردیا۔

اس موقع پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مالک ملک ریاض کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین مطالبہ کررہے تھے کہ ہم پچھلے 8 سالوں سے بے گھر ہیں ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ احتجاجی مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ سے گھر الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

متعلقہ تحاریر