بلوچستان میں سیاسی زلزلہ، صوبائی کابینہ کے ارکان آپے سے باہر

صوبائی کابینہ کے 3 وزرا، 4 مشیروں اور 2 پارلیمانی سیکرٹریز نے گورنر بلوچستان کو اپنے استعفے پیش کردیے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف اٹھنے والا سیاسی بحران شدت اختیار کرتے ہوئے زلزلے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ صوبائی کابینہ کے ناراض اراکین گورنر ہاؤس کوئٹہ پہنچ گئے، جہاں 3 وزراء ،4 مشیروں اور 2 پارلیمانی سیکرٹریز نے استعفے دے دیے ہیں۔ وزراء عبدالرحمان کھیتران ، میر اسد بلوچ ، اور ظہور بلیدی،2 مشیروں  میں حاجی محمد خان لہڑی اور اکبر آسکانی شامل ہیں، جبکہ 4 پارلیمانی سیکرٹیرز ، لیلی ترین ، بشریٰ رند، ماہ جیں شیران اور لالہ رشید بلوچ نے بھی گورنر بلوچستان کو استعفے پیش کردیئے ہیں۔

بلوچستان میں اعصاب شکن سیاسی جنگ جاری ہے۔

وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ اور صوبائی وزراء سمیت ناراض حکومتی ارکان میں ان دنوں اعصابی جنگ جاری ہے۔ صوبے کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں گذشتہ کئی ہفتوں سے یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ جام کمال خان آلیانی وزیر اعلیٰ رہیں گے یا نہیں۔؟

یہ بھی پڑھیے

کیا نیب آصف علی زرداری کو ریلیف دے رہا ہے؟

وہ وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہو جائیں گے یا صوبائی وزراء سمیت ان کی جماعت کے ناراض اراکین اپوزیشن کی حمایت سے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں گے۔ اور کیا یہ تحریک کامیاب ہوجائے گی۔؟

بلوچستان عوامی پارٹی (ْبی اے پی) کے سربراہ جام کمال خان آلیانی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے 16 ویں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھایا تھا یوں وہ اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے تیسرے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ اس سے پیشتر ان کے دادا اور والد بھی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔

جام آف لسبیلہ میر غلام قادر کے پوتے اور خان آف قلات میر احمد یار خان کے نواسے جام کمال کو 39 ووٹ ملے تھے تاہم بعد میں انہیں 65 کے ایوان میں 41 اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔

باپ کی دو دھڑوں میں تقسیم

مگر پھر صورتحال تبدیل ہوئی اور صوبے میں اکثریت رکھنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔

 صوبائی وزرا سمیت باپ اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کے گروپ نے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔

حکومتی ارکان جام کمال سے کیوں ناراض ہیں۔؟

بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے دو روز قبل کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی جس میں وزیر اعلیٰ پر بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال خان آلیانی پر ان کے عدم اعتماد کی وجہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی، خراب طرز حکومت اور ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا ہے۔

ناراض ارکان کا وزیراعلی کے خلاف اکثریت کی حمایت کا دعویٰ

بلوچستان میں 65 کے ایوان میں حکومت سازی کے لئے 33 اراکین کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ ناراض حکومتی ارکان کا دعویٰ ہے کہ انہیں 14 سے 15 حکومتی ارکان کی حمایت حاصل ہے اس طرح اپوزیشن سمیت ان کے ارکان کی تعداد 36 سے 37 ارکان بنتی ہے جو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف ووٹ دیں گے جبکہ وزیر اعلیٰ جام کمال کو 27 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

صوبائی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں

بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت جام کمال کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 24 ہے جبکہ حکومت میں شامل دیگر جماعتوں میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 7, عوامی نیشنل پارٹی کی ارکان 4،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن شامل ہیں۔ جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 23 ہے۔ جن میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل متحدہ حزب اختلاف کے اراکین شامل ہیں، آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے نواب محمد اسلم خان رئیسانی بھی اپوزیشن کا حصہ ہیں۔

ناراض وزرا اور مشیر و سیکرٹریز

ناراض اراکین میں صوبائی وزراء عبدالرحمن کھیتران ، میر اسد بلوچ ، اور ظہور بلیدی،2 مشیر میں حاجی ٘محمد خان لہڑی اور اکبر آسکانی جبکہ 4 پارلیمانی سیکرٹیرز ، لیلی ترین ، بشریٰ رند، ماہ جیں شیران اور لالہ رشید بلوچ شامل ہیں۔

بلوچستان کابینہ کے اجلاس سے غیر حاضر وزرا

کوئٹہ میں گزشتہ روز ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں آب پاشی کے وزیر طارق مگسی، واسا اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے وزیر نور محمد دمڑ اور جان محمد جمالی نے شرکت نہیں کی۔

وزیر خزانہ بلوچستان ظہور بلیدی اور بعض دیگر وزرا کا کہنا تھاکہ انہوں نے استعفے گورنر بلوچستان کو جمع کروا دیے ہیں۔ پارلیمانی قواعد کے مطابق ناراض وزرا مستعفیٰ ہوکر ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرسکتے ہیں۔

مستعفیٰ ہونے کی مہلت گزر گئی۔

ناراض حکومتی ارکان نے جام کمال کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفیٰ ہونے کے لئے بدھ تک کی مہلت دی تھی اور اعلان کیا تھا کے مہلت گزرنے کے بعد سخت لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا تاہم وزیر اعلیٰ جام کمال نے استعفٰی دینے سے انکار کردیا۔

ناراض ارکان کا دعویٰ ہے کہ انہیں 13 سے 14 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور اپوزیشن کی مدد سے وہ جام کمال کو وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹادیں گے۔

ترجمان حکومت بلوچستان کی نیوز360سے خصوصی گفتگو

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا نیوز 360سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت میں شامل اراکین کی مجموعی تعداد 41 ہے جن میں سے 27 وزیر اعلیٰ جام کمال کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ وزیر اعلیٰ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔ جب ان سے ناراض حکومتی ارکان کے دعوؤں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھاکہ اپوزیشن کے دعوؤں سے کچھ نہیں ہوتا، جام کمال ناراض اراکین کو منالیں گے۔

ناراض ارکان حکومت کا دعویٰ مسترد کرتے ہیں-

ناراض ارکان ترجمان حکومت بلوچستان کا دعویٰ مسترد کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت  جانب سے تاثر دیا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ ناراض ارکان کو منالیں گے مگر ناراض ارکان اسے مسترد کرتے ہیں۔

حکومت بچانے کی کوششیں،کئی شخصیات سرگرم

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور بعض دیگر شخصیات کے علاوہ جام کمال بھی ناراض ارکان کو ماننے کی کوشش کر چکے ہیں مگر یہ کوششیں لاحاصل ثابت ہوئیں اور ناراض ارکان  جام کمال کے استعفیٰ سے کم پر راضی نہیں۔

صوبہ کی اہم سیاسی قبائلی شخصیات سے بھی رابطہ اور مدد کی درخواست

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جام کمال کی جانب سے صوبہ کی اہم سیاسی قبائلی شخصیات جن میں ایک پارٹی کے بلوچ سربراہ بھی شامل ہیں ان سے بھی رابطہ اور مدد کی درخواست کی گئی مگر دوسری جانب سے معذرت کرلی گئی۔

جبکہ دوسری جانب انہیں بلوچ رہنما اور ایک اپوزیشن کی مذہبی جماعت کے رہنما میں ملاقات ہوئی اور مستقبل میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔

بات وزیر اعلیٰ جام کے استعفیٰ سے آگے نکل گئی۔

ناراض ارکان نے جام کمال کو استعفٰی کے لئے 6 اکتوبر تک کی مہلت دی تھی مگر جام کمال نے استعفیٰ کی بجائے مقابلے کا فیصلہ کیا اور اب بات تحریک عدم اعتماد تک پہنچ گئی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں پریشان

ناراض حکومتی ارکان کا دعویٰ ہے کہ انہیں 36سے 37ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ حکومت سازی کے لئے 33ارکان کی حمایت سے سادہ کثریت حاصل کی جاسکتی ہے، یوں اپوزیشن کو ان کے دعوؤں کے مطابق  مطلوبہ تعداد سے محض چند ووٹوں کی برتری حاصل ہے جبکہ 27ارکان کی حمایت کے دعویدار وزیر اعلیٰ جام کمال کو 5سے 6رکان کی حمایت درکار ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔؟

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے مطلوبہ تعداد کے کم فرق کے سبب تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ پر امید ہیں کہ کچھ ارکان کو وہ منالیں گے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بعض ارکان دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اور ناراض ارکان میں سے کس کا پلڑہ بھاری ہوتا ہے۔یوں وہ دونوں طرف جاسکتے ہیں۔

صوبائی وزرا کے استعفے اہم ہیں۔

وزیر خزانہ بلوچستان ظہور بلیدی اور ان کے ہم خیال وزراء نے بدھ کی شب  استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ جلد مستعفیٰ نہیں ہوتے تو صورت حال وزیر اعلیٰ جام کمال کے حق میں جاسکتی تھی۔ تاہم گورنر بلوچستان کی جانب سے اب تک استعفٰی منظور نہیں کئے گئے، آئندہ ایک دو روز جوڑتوڑ کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

متعلقہ تحاریر