مزاحمت نہیں "مفاہمت”، مولانا فضل الرحمان کو بات سمجھ آگئی!
مولانا فضل الرحمان نہایت جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، کل ان کی پوری تنقید کا محور صرف پی ٹی آئی حکومت اور وزیراعظم عمران خان تھے۔
حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کا اجلاس آج منعقد ہوگا۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان شرکت کریں گے۔
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے لاہور میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقات کی۔ ملاقات میں اہم سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
کیا پی ڈی ایم اتحاد قائم رہ پائے گی؟
کیا پیپلزپارٹی کو لانگ مارچ پر قائل ہونا پڑے گا؟
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے ملک میں فوری انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اپنے اہداف کے لیے سنجیدہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم کا 16 اکتوبر کو فیصل آباد اور 31 اکتوبر کو ڈیرہ غازی خان میں جلسہ ہوگا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ برس اپنی شعلہ بیان تقریروں کی بدولت پی ڈی ایم تحریک کو عوام میں مقبول کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اس ملاقات میں کہیں نظر نہ آئیں۔
دوئم یہ کہ مولانا فضل الرحمان جو کہ اداروں کے حوالے سے نہایت جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں وہ بھی کل بہت سنبھل کر بات کررہے تھے اور ان کی پوری تنقید کا محور صرف پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان تھے۔
ممکنہ طور پر مولانا فضل الرحمان اداروں کی اہمیت جان گئے ہیں، انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ آپ بڑے سے بڑا انقلاب بھی "اجازت” کے بغیر نہیں لاسکتے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بار مولانا صاحب نے اداروں کے متعلق کوئی بات نہیں کی لیکن حکومت اور وزیراعظم کی کارکردگی (جو کہ ویسے ہی صفر ہے) پر بات کرتے رہے۔
اپنے تیزی سے تبدیل ہوتے "نظریات” کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان نے "نظریاتی سیاست” کا نعرہ لگانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سے بھی کنارہ کشی کرلی ہے کیونکہ اِن کے بیانیے کو فروغ دینا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔
یاد رہے کہ مولانا صاحب اس سے قبل گزشتہ دو برس کے دوران حکومت مخالف جلسے جلوسوں میں براہ راست عسکری حکام کے نام اور عہدے لے کر تنقید کرچکے ہیں، ایک موقع پر انہوں نے جی ایچ کیو کے سامنے دھرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔