جعلی یا فیک نیوز آج کا اہم مسئلہ ہے، سینئر صحافی عون ساہی

عون ساہی کا کہنا ہے کہ آج کسی کا حوالہ دینے کی بجائے ذرائع سے خبر چلانا قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے ایگزیکٹو پروڈیوسر اور سینئر صحافی عون عباس ساہی نے کہا ہے کہ جعلی یا فیک نیوز آج کا اہم مسئلہ ہے۔

نیوز 360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی عون عباس ساہی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی رہنما مریم صفدر کے صاحبزادے کی آف شور کمپنیوں سے متعلق ایک فیک نیوز پی ٹی وی سے منسوب کی گئی، جو پاکستان ٹیلی ویژن نے نشر ہی نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کالعدم بی ایل اے کے ہاتھوں میٹرو ون کے صحافی شاہد زہری قتل

سینئر صحافی شفیع جامی کی سوشل میڈیا ٹرین بھی پٹڑی سے اترگئی

عون ساہی کا کہنا تھا کہ پنڈورا پیپرز  سے متعلق خبر سامنے آنے کے فوراً بعد پاکستان ٹیلی ویژن نیوز کا فیک اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جسے سوشل میڈیا پر دیکھ کر اے آر وائی نیوز نے 10 بج کر 59 منٹ پر یہ فیک نیوز نشر کر دی۔

پھر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے یہ اسکرین شاٹ ٹوئیٹ کردیا اور بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس خبر سے متعلق ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بعض اطلاعات ہیں تاہم انہوں نے فیک بینر ٹوئٹ نہیں کیا۔ 11 بج کر 12 منٹ پر جیو نیوز پر شہزاد اقبال نے اپنے پروگرام میں اس فیک اسکرین شاٹ کی بنیاد پر بغیر تصدیق کئے خبر کا تذکرہ کیا۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر اینکر جاوید اقبال نے 11 بج کر 13 منٹ پر اس خبر سے متعلق ریمارکس دیئے کہ بعض اطلاعات ہیں کہ جنید صفدر کی پانچ آف شور کمپنیاں ہیں. یہ ان کے ریمارکس تھے، پاکستان ٹیلی ویژن سے یہ جعلی خبر بالکل نہیں چلائی گئی۔

سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی نے ایسی کوئی خبر نہیں دی۔ جاوید اقبال نے بعد میں پی ٹی وی انتظامیہ کہ کہنے پر ٹوئٹ کرکے کے پروگرام میں غلط خبر کے حوالے سے معذرت کرلی جبکہ خبر نشر کیا جانا اور اینکر کی جانب سے بات کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ پرائیویٹ میڈیا چینلز نے اس معاملے پر کوئی معذرت نہیں کی۔ جیو نیوز کے پروگرام میں شاہ زیب خانزادہ نے اس موضوع پر بات کی مگر شاید نادانستہ طور پر جیو نیوز کا تذکرہ کرنا بھول گئے کہ جیو نیوز نے بھی اس فیک نیوز میں حصہ ڈالا تھا۔

عون عباس ساہی کا کہنا تھا کہ بغیر تصدیق خبر دیا جانا افسوسناک ہے جہاں خبر غلط ہو جائے تو تسلیم کرکے معذرت کر لینی چاہیے، مگر کوئی صحافی غلط خبر دے کر اس پر اصرار کرتا ہے تو بات سمجھ میں نہیں آتی۔ صحافی کا تو کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا پھر ایسا کیوں ہے، یہ کہنا نامناسب ہے کہ میں نے جو خبر لگائی وہ نہیں ہٹاؤں گا کیونکہ سیاست دانوں نے بھی ایسا کیا ہے۔ یہ کچھ اور تو ہوسکتا ہے مگر صحافت نہیں، ایسے ہی واقعات کے سبب صحافت پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوٹو شاپ سے چیزیں تیزی سے تبدیل کردی جاتی ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے جعلی اسکرین شاٹ ایک ہفتے بعد بھی بعض لوگوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لگا رکھے ہیں۔ جن میں کئی بڑے بڑے اینکرز بھی شامل ہیں، جنہوں نے ڈھٹائی سے یہ جعلی اسکرین شارٹ لگائے ہوئے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ان کے لیے ڈسک کریڈٹ ہے۔

عون عباس ساہی کا کہنا تھا کہ کہ غلطی کرنا ایک اور معاملہ ہے اور کوئی ایجنڈا لے کر چلنا دوسرا معاملہ ہے۔

مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن میں فرق سمجھنا ضروری ہے، رپورٹرز کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ درست خبر دے، کوئی رپورٹر ایک سے زائد مرتبہ غلط خبر دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ بعض سیاستدانوں کے لیے یہ سکسر ہے انہیں کہی ہوئی بات کے غلط ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

سینئر صحافی عون ساہی کا مزید کہنا تھا کہ نیوز چینلز میں ایڈیٹر کے انسٹی ٹیوشنز کو ختم کر کے نئے ایڈیٹرز تخلیق کیے گئے اور پھر رپورٹر سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں۔ ایڈیٹر خبر کو فلٹر کرتا تھا جس سے غلط خبر چلنے کے امکانات کم ہو جاتے تھے مگر مگر اب ایسا نہیں ہے۔ آج کسی کا حوالہ دینے کی بجائے ذرائع سے خبر چلانا قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر