کیا میڈیا سول اور عسکری اداروں کو لڑوانا چاہتا ہے؟
رواں ماہ پاک فوج میں اعلیٰ سطح پر ہونے والے تقرر و تبادلے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں، میڈیا نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔
اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے اعلیٰ سطح کے تبادلے اور تقرریوں کا ایک نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔ ان میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری موضوعِ بحث بن گئی۔
میڈیا میں یہ خبریں نشر ہونے لگیں کہ فوج اور وزیراعظم میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ہی اس عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں جبکہ جی ایچ کیو اب انہیں نئی ذمہ داریاں دینا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی، نام نہاد جمہوریت پسند صحافی سازش پر اتر آئے
جنرل فیض حمید کورکمانڈ رپشاور ، جنرل ندیم انجم نئے ڈی جی آئی ایس آئی
اس متعلق گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ کی کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر کا بیان میڈیا کے اس دعوے کی نفی تھا کہ فوج اور وزیراعظم کے مابین کسی قسم کا اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا اپنی پرانی روش سے باز نہ آیا اور پیر کو وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ملاقات پر قیاس آرائیاں شروع کردیں۔
کئی دنوں سے میڈیا کی غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ پر بلآخر ایک اہم ادارے نے نوٹس لے لیا۔ نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق گزشتہ روز ایک ادارے کی جانب سے ملک کے تمام نشریاتی اداروں سے سوال کیا گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے لیے ناموں کی فہرست جو کہ چینلز پر نشر کی جارہی ہے وہ آپ نے کہاں سے حاصل کی؟
ہمیشہ کی طرح صحافیوں اور ان سے بالا چینل مالکان نے "ذرائع” کی چھتری تلے چھپنے کی کوشش کی لیکن ادارے نے ان کی سخت سرزنش کرتے ہوئے واضح کیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے کے لیے کسی قسم کی کوئی سمری سِرے سے تیار ہی نہیں ہوئی۔
ذرائع کے مطابق ادارے نے میڈیا نمائندگان کو کہا کہ آپ لوگ غیرذمہ دارانہ خبریں نشر کرکے سول ملٹری تعلقات میں دانستہ طور پر کشیدگی کروانا چاہتے ہیں۔
امکان یہی ہے کہ میڈیا مالکان اور ان کے "جگا جاسوس” قسم کے رپورٹرز جن کا دعویٰ ہے کہ وہ "اندر” کی خبریں نکال لاتے ہیں، اب اس تنبیہی ٹیلیفون کال کے بعد "قوم کو باخبر رکھنے” کی اپنی "خودساختہ ڈیوٹی” صحیح طریقے سے سرانجام دیں گے۔
میڈیا ماضی میں بھی نہایت حساس موضوعات پر غلط رپورٹنگ کرکے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی موقف کو نقصان پہنچاتا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نشریاتی و اشاعتی ادارے میڈیا قوانین کے سخت خلاف ہیں ورنہ اس قانون کا اطلاق ہوجائے اور میڈیا کی یہ جھوٹی خبریں پکڑی جائیں تو کروڑوں روپے جرمانہ بھرنے کے بعد عقل آہی جائے گی۔