کیا تبدیلی کی ہوا بلوچستان سے چلنا شروع ہو گی؟

بلوچستان عوامی پارٹی کے 14 ناراض ارکان نے اپوزیشن کے 23 اور آزاد رکن اسمبلی اسلم رئیسانی کی بھی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔

بلوچستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا۔ وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف حکومتی اتحاد کے ناراض ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد آج شام بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔

بلوچستان اسمبلی کا آج کا اجلاس ہنگامہ خیز ہوگا۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی تین روز کے اندر تحریک پر رائے شماری کے پابند ہیں۔

تحریک عدم اعتماد: وزیراعلی ،ناراض حکومتی ارکان اور اپوزیشن کے دعوے۔

جام کمال کے خلاف 14 ناراض حکومتی ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جسے اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 65 ارکان کے ایوان میں 33 اراکین کی ضرورت ہے۔ 23 اراکین پر مشتمل اپوزیشن (جو پہلے ہی جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر چکی ہے-) نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا ہے.

یہ بھی پڑھیے

مہنگائی عمران خان کے لیے سونامی ثابت ہوگی

نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کو 15 دن میں گھر خالی کرنے کا حکم

تحریک عدم اعتماد پر کن اراکین کے دستخط ہیں؟۔

تحریک عدم اعتماد حکومتی میں شامل ناراض ارکان کی جانب سے بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی تھی تحریک عدم اعتماد پر جن اراکین کےدستخط ہیں، ان میں وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین شامل ہیں۔

تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں اراکین صوبائی اسمبلی سعید ہاشمی، جان جمالی، میر ظہور احمد بلیدی، اسد بلوچ، نصیب اللہ مری، سردار عبدالرحمٰن کھیتران سمیت دیگر اراکین اسمبلی شامل ہیں۔

ناراض ارکان اور وزیراعلیٰ کے اکثریت کی حمایت کے دعوے

بلوچستان میں 65 کے ایوان میں حکومت سازی کے لئے 33 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ ناراض حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں 15 حکومتی ارکان کی حمایت حاصل ہے، 14 حکومتی ارکان کے دستخط تحریک عدم اعتماد پر موجود ہیں۔ اس طرح اپوزیشن سمیت ان کے ارکان کی تعداد 38 ارکان بنتی ہے جو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں جام کمال کے خلاف ووٹ دیں گے جبکہ وزیر اعلیٰ جام کمال کو 26 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

صوبائی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں

بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت جام کمال کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 24 ہے جبکہ حکومت میں شامل دیگر جماعتوں میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 7،  عوامی نیشنل پارٹی کی ارکان 4، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن شامل ہیں۔ جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 23 ہے۔ جن میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل متحدہ حزب اختلاف کے اراکین شامل ہیں، آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے نواب محمد اسلم خان رئیسانی بھی حزب اختلاف کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اسپیکر کے عشائیہ میں 36 ارکان کی شرکت۔

وزیراعلیٰ اور مخالفین کی جانب سے اکثریت کے دعوے کیے جا رہے ہیں تاہم تحریک عدم اعتماد سے ایک روز قبل ناراض اراکین اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر عشائیہ میں جمع ہوکر بظاہر اپنی اکثریت کا اظہار کردیا۔ اس عشائیہ میں میں 36 اراکین صوبائی اسمبلی شریک ہوئے جبکہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے 33 ووٹ درکار پیں۔ بی اے پی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہیں 65 کے ایوان میں 40راکین کی حمایت حاصل ہے، اس لئے جام کمال کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کیا کہتے ہیں۔؟

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے چند ممبران اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونگے۔ ان کا اصل مقصد حکومت حاصل کرنا نہیں بلکہ بلوچستان کو تباہی کی طرف لے جانا ہے۔ جام کمال خان نے دعویٰ کیا کہ انہیں اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔

جام حکومت ۔ کیا ہوسکتا ہے۔؟

جام کمال مخالف حکومتی گروپ اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے بظاہر اکثریت ثابت کر دی گئی ہے جبکہ جام کمال کا اسلام آباد کا دورہ جس میں انہوں نے وزیراعظم سمیت کئی حکومتی اور بااثر شخصیات سے ملاقاتیں کیں مگر وہ صورتحال کو اپنے حق میں بہتر نہ کر سکے، ناراض اراکین کو منانے کی کوششیں بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیں، یوں بظاہر جام کمال کی پوزیشن کمزور دکھائی دیتی ہے مگر اصل صورتحال تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد ہی سامنے آئے گی۔

متعلقہ تحاریر