بھارت میں حسن علی کے خلاف منفی پراپیگنڈہ

بھارتی صحافیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ پاکستان میں حسن علی پر اس لیے تنقید ہو رہی ہے کیونکہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

گزشتہ روز آئی سی سی ٹی 20 ورلڈکپ سیمی فائنل میں پاکستان کو آسٹریلیا نے 5 وکٹوں سے شکست دی۔ میچ کا انتہائی فیصلہ کن موڑ تھا جب شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر آسٹریلوی بیٹسمین میتھیو ویڈ نے شاٹ لگایا اور باؤنڈری لائن کے قریب موجود حسن علی کیچ نہ کرسکے۔

گو کہ پاکستانی ٹیم کی شکست میں یہی ایک کیچ اہم ترین تھا لیکن اس کے باوجود نہ تو کھلاڑیوں نے نہ ہی تماشائیوں نے اور نہ پاکستان میں چند ایک افراد کو چھوڑ کر حسن علی پر کوئی تنقید کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

فاسٹ باؤلر حسن علی اسٹار ہیں اسٹار ہی رہیں گے

کینگروز نے شاہینوں کو چاروں خانے چت کردیا، فائنل میں پہنچ گئے

حسن علی بہت بہترین بالر ہیں، کیچ چھوٹتے رہتے ہیں، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن کسی کھلاڑی پر ذاتیات پر حملہ نہیں کرنا چاہیے اور پاکستانی شائقین نے ایسا بالکل نہ کیا۔ میچ ہارنے کا افسوس ضرور تھا لیکن ہم نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کی۔

پڑوسی ملک بھارت میں لیکن عجیب و غریب قسم کا پراپیگنڈا شروع ہوگیا۔ وہاں صحافیوں اور دیگر شخصیات نے یہ کہنا شروع کردیا کہ پاکستان میں حسن علی پر اس لیے تنقید ہو رہی ہے کیونکہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

صحافی مخدوم شہاب الدین نے اپنی ٹویٹ میں چار ایسی ہی ٹویٹس شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ دعا کرنی چاہیے دشمن بھی خاندانی ملے۔

دراصل بھارت کے اس منفی پراپیگنڈے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسی ایونٹ میں پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلے گئے میچ میں انڈین فاسٹ بالر محمد شامی کی کارکردگی اچھی نہ رہی۔

اس پر پورے بھارت میں محمد شامی کے خلاف شور مچ گیا۔ شامی کو بھارتی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا کہ کیونکہ وہ مسلمان ہیں اس لیے انہوں نے بھارت کو ہروایا۔

ایسے میں کپتان ویرات کوہلی نے کہا کہ وہ مکمل طور پر محمد شامی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یوں اُس پراپیگنڈے کا خاتمہ ہوا۔

خود ویرات کوہلی کی 10 ماہ کی بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں دی گئیں جس کا ملزم چند روز قبل گرفتار کرلیا گیا ہے۔

یہ صورتحال ہے بھارت کی اور وہ چلا ہے پاکستانی پلیئر اور قوم کے درمیان نفاق کا بیج بونے۔

بھارت کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اول تو حسن علی شیعہ نہیں سُنّی ہیں۔ دوئم یہ کہ پاکستان میں اتنے کم ظرف اور تنگ نظر لوگ نہیں ہیں جو کھیل کو فرقے، مذہب اور ذاتیات تک لے جائیں۔

متعلقہ تحاریر