حکومت کے لیے اصل خطرہ کون اپوزیشن یا اتحادی؟
حکومت کے بڑے اتحادی ایم کیو ایم اور ق لیگ نے ای وی ایم اور دیگر معاملات میں مشاورت نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف (اپوزیشن) کی جماعتوں کے درمیان آپس میں دوبارہ رابطے شروع ہو گئے ہیں جبکہ حکومت کی بعض اتحادی جماعتیں حکومت سے نالاں دکھائی دے رہی ہیں۔
چار روز قبل اپوزیشن جماعتوں نے قوقی اسمبلی میں حکومتی جماعت کو دو بلوں کے معاملے پر ووٹنگ کے دوران دو مرتبہ شکست سے دوچار کردیا ۔ ایک بل حکومتی رکن کی جانب سے پیش کیا گیا جی مخالفت حزب اختلاف کی جماعتوں نے کی۔ تاہم ڈیٹی اسپیکر قومی اسملبی قاسم سوری نے ووٹنگ کرانے کا کہا۔ ووٹنگ میں بل کے حق میں 104 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ آئے۔ اس طرح ایک بل مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی جاوید حسنین نے پیش کیا جس کی مخالفت حکومتی بنچوں کی جانب سے کی گئی ۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر کے حکم پر ووٹنگ کرائی گئی مگر بل کے حق میں 117 ووٹ آئے اور مخالفت میں 104 ووٹ ڈالے گئے۔
یہ بھی پڑھیے
افغانستان میں انسانی المیے سے بچنے کیلیے کوششوں کی ضرورت، آرمی چیف
انسانی حقوق کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع
ملکی سیاست میں سب سے بڑی ہلچل اس ہوئی جب گذشتہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے کافی عرصے کے بعد ملاقات کی۔ ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہے۔ یہ ملاقات پی ڈی اے کی تحریک سے الگ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔
اس ملاقات کو لے کر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ اپوزیشن اپنے آپ کو دوبارہ یکجا کررہی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ پی پی پی دوبارہ پی ڈی ایم کا حصہ بن جائے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا ہے ۔ جس میں بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی معاملہ بھی زیربحث آیا ہے کہ قانون سازی کس طرح سے کی جائے کیونکہ حزب اختلاف مان نہیں رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس کی اندرونی جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اراکین نے کہا ہے کہ ہمیں حزب اختلاف کی جماعتوں پر اتنا فوکس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپوزیشن ہی رہے گی بلکہ ہمارے جو حمایتی ہیں اور ہمارے جو اتحادی ہیں وہ ہمارے لیے بڑا خطرہ ہیں خاص طور پر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) ۔ ہمیں ان کو منانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
ادھر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے کے لیے خط لکھا ہے۔ تاہم ابھی تک شہباز شریف کی جانب سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ جواب سامنے نہیں آیا ہے ۔
ادھر حکومت کے اتحاد بھی حکومت سے کچھ نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔ دو دن پہلے ایم کیو ایم پاکستان نے وفاقی حکومت سے ڈیمانڈ کردی تھی کہ انکے آفسز کھولے جائیں جیسے ٹی ایل پی کے کھولے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم نے واضح طور پر حکومت کو کہہ دیا تھا کہ ان کی پارٹی ای وی ایم کے حوالے سے ہونے والی ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں واضح طور پر یہ بات کی گئی کہ پنجاب حکومت تو ہمیں کسی بھی معاملے میں پوچھتی نہیں کسی بھی فیصلے میں ہم سے مشاورت نہیں کی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی پارٹی اجلاس میں ای وی ایم تحفظات کا اظہار کیا ہے۔