سابق چیف جج سےمتعلق الزامات: نیا پینڈورا بکس کھلنے کا خدشہ

نوازشریف کے کیس کی سماعت کرنےوالے ججز میں جسٹس عامر فاروقی شامل ہی نہیں تھے تو فون کال کیوں کی گئی ؟

پاکستان کے معروف اخبارات جنگ اور دی نیوز میں  سینئر صحافی انصار عباسی  کی جانب سے سنسنی خیز انکشافات سے بھرپور ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے  جس  میں انہوں نے لکھا ہے کہ 10 نومبر 2021 کو گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس راناشمیم اوتھ کمشنر کے روبرو اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج عامر فاروق کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نوازشریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے ، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو وہ (ثاقب نثار) پرسکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ طلب کیا“۔

یہ سنسنی خیز انکشافات ایسے وقت میں سامنے آئیں ہیں جب حکمران جماعت تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کو سیاسی اتحادیوں کی جانب سے ناراضگی بھی برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور عوام کی طرف سے بڑھتی مہنگائی پر انہیں تنقیدکا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ثاقب نثار نے کہا نواز شریف جیل سے باہر نہ آئیں، سابق جسٹس کا الزام

نواز شریف کی لاہور کی جائیداد 10 روز بعد نیلام کی جائے گی

ذرائع کے مطابق اس غیر معمولی  اور حساس معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا نام آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر صحافی انصار عباسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کردیا ۔ اس کے علاوہ سابق جج رانا شمیم کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

سینئر صحافی  احمد نورانی  نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس حوالے ایک اور انکشاف کرکے  نئی  بحث شروع کردی ہے  ، احمد نورانی کا کہنا ہے مئورخہ سترہ جولائی دوہزاراٹھارہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلوں کی سماعت کرنےوالےججزکےنام پڑھ لیں۔ ان ججزمیں عامرفاروق نہیں تھے ، انھوں نے کہا کہ پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ کوعام انتخابات تھے ، چھ جولائی، جج محمدبشیرنےایون فیلڈ کیس میں سزاسنائی، تیرہ جولائی، نوازشریف اورمریم نوازپاکستان واپس آئے،  16  جولائی، اسلام آبادہائیکورٹ میں سزاکےخلاف اپیلیں اورفوری ریلیف کی درخواستیں دائرہوئیں اورسترہ جولائی کوسماعت کیلیےمقررہوگئیں،سترہ جولائی، ثاقب نثارپانچ روزہ دورےپر گلگت لے جائےگئے۔

 انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں احباب سےمئودبانہ گزارش ہے کہ مئورخہ سترہ جولائی دوہزاراٹھارہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلوں کی سماعت کرنےوالےججزکےنام پڑھ لیں ان ججزمیں عامرفاروق نہیں تھے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے نواز شریف اور مریم نواز کے کیس کے حوالے سے  سابق جسٹس رانا شمیم کے الزامات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ میرے متعلق رپورٹ ہونے والی خبرحقائق کے منافی ہے، سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے سفید جھوٹ پرکیا جواب دوں؟ رانا شمیم بطورچیف جسٹس گلگت بلتستان ایکسٹینشن مانگ رہے تھے جو میں نے منظورنہیں کی اور ایک مرتبہ رانا شمیم نے مجھ سے ایکسٹینشن نا دینے کا شکوہ بھی کیا تھا۔سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر ایک جھوٹی اور من گھڑت بات کا ردعمل دینا دانشمندی نہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اگر سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے جسٹس عامر فاروقی کو ٹیلی فون کال کی اور احکامات دیئے لیکن نوازشریف کے کیس کی سماعت جو دورکنی بینچ کررہا تھا اس میں تو جسٹس محسن اخترکیانی  اور میاں گل اورنگزیب  شامل تھے تو سابق جسٹس  ثاقب نثار نے جسٹس عامر فاروقی کو  احکامات کیوں دیے ؟

دوسری  جانب  سینئر صحافی اسد کھرل نے بھی   اس حوالے سے پیش کئے گئے   حلف نامے پر سوالات اٹھادیئے  انھوں نے اپنے آفیشل ٹوئٹر ہنڈل سے  سابق وزیراعظم نوازشریف  کی  جانب سے جج ارشد ملک کی فارنسک رپورٹ ، نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ  اور پھر سابق جج رانا شمیم کا حلف نامہ  شیئر کیا جس کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کہ  یہ  تینوں  حلف نامے   برطانوی  لاء فرم  چارلس ڈروسٹا ن گوتریس کے تصدیق شدہ  ہیں ۔

متعلقہ تحاریر