کیا مریم نواز ، جسٹس (ر) رانا شمیم کے بیان حلفی سے آگاہ تھیں؟

مسلم لیگ (ن) نائب صدر کے اپنے والد نواز شریف سے متعلق حالیہ ٹوئٹ نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) رانا شمیم، دی نیوز کے چیف ایڈیٹر اور پاکستان کے سینئر صحافی انصار عباسی کو آج ساڑھے دس بجے طلب کر لیا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل جسٹس (ر) رانا شمیم ​​نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار پر سنگین الزامات عائد کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

سابق چیف جج سےمتعلق الزامات: نیا پینڈورا بکس کھلنے کا خدشہ

اسلام آبادمیں ہلچل، حکومت اور حزب اختلاف کی صف بندیاں جاری

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا معاملہ دی نیوز کے صحافی انصار عباسی کی خصوصی رپورٹنگ کے بعد سامنے آیا۔ سینئر صحافی انصار عباسی کی خبر رانا شمیم ​​کے بیان حلفی پر مبنی تھا، اور یقینی طور پر، سابق جی بی کے اعلیٰ جج یا ان کے معاون نے صحافی کے ساتھ بیان حلفی شیئر کیا ہوگا۔

لیگن اگر ہم مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف کے دو دن پہلے والے ٹوئٹر پر بیان کا مشاہدہ کریں ، جس میں انہوں نے لکھا ہے "حقیقی خوشی کیا ہے؟ جب آپ اپنی زندگی میں ہی سرخرو ہو جائیں۔ الحمداللہ "

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کے اس ٹوئٹ سے پتا چلتا ہے کہ مریم نواز کو معلوم تھا کہ ان کے والد کے حق میں (سابق جی بی چیف جسٹس کا متنازع بیان) سامنے آنے والا ہے۔ یا یہ ایک محض اتفاق تھا کہ انہوں نے 14 نومبر کو اپنے والد کی بریت کے بارے میں لکھا اور اس کے دو دن بعد جسٹس (ر) رانا شمیم ​​نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس پر سنگین الزامات لگادیئے۔

مریم نواز کی ٹویٹ اور رانا شمیم ​​کے الزامات میں کوئی تعلق ہے یا نہیں اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس سارے کا معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے مذکورہ افراد کو عدالت میں طلب کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے معروف اخبار نے دو روز قبل ایک اسٹوری چھاپی تھی جس کے مطابق ” گلگت بلتستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم ​​نے الزام لگایا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج عامر فاروق کو ہدایت کی تھی کہ وہ عام انتخابات تک سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کو کسی صورت ضمانت نہ دیں اور انہیں جیل میں رکھا جائے۔

رانا شمیم ​​نے یہ الزامات نوٹرائزڈ بیان حلفی میں لگائے تھے۔

سابق اعلیٰ ترین جی بی جج نے 10 نومبر 2021 کو اوتھ کمشنر کے سامنے حلف کے تحت بیان دیا تھا۔ حلف نامہ کو نوٹری پبلک چارلس ڈروسٹان گتھری نے باقاعدہ نوٹریائز کیا، جو گولڈن کراس ہاؤس، 8 ڈنکنن اسٹریٹ، لندن میں واقع ہے۔

بیان حلفی کی حیثیت

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ایسے کسی بھی بیان حلفی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ جب تک آپ اس کو ثابت نہیں کردیتے ۔ نہیں تو کوئی بھی بندہ کھڑا ہو کر کوئی بیان حلفی دے سکتا ہے اور کسی بھی شخص کو موردالزام ٹھہرا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اب جسٹس (ر) رانا شمیم کو اپنے الزامات ثابت کرنا ہوں گے۔

متعلقہ تحاریر