جج رانا شمیم کا بیان حلفی ، جنگ جیو کو لینے کے دینے پڑ گئے

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جنگ جیو کے مالک میر شکیل الرحمان ، سینئر صحافی انصار عباسی اور دی نیوز کے مدیر اعلیٰ عامر غوری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کی جانب سے سباق چیف جسٹس ثاقب نثار پر سنگین الزامات کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے رانا شمیم ، میر شکیل الرحمان ، انصار عباسی اور عامر غوری کو باقاعدہ شوکاز نوٹسز جاری کردیئے ہیں اور 26 نومبر کو جواب طلب کرلیا ہے۔

جسٹس (ر) رانا شمیم کے بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے باقاعدہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک خیال ہے کہ یہ بیان حلفی ہی جھوٹا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں غلط بیان حلفی ہوا تو نتائج کیا ہوںگے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا مریم نواز ، جسٹس (ر) رانا شمیم کے بیان حلفی سے آگاہ تھیں؟

سینیٹر فیصل واوڈا اور جاوید لطیف کے اعلیٰ عدلیہ پر سنگین الزامات

اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ یہ سیدھا سیدھا مجرمانہ فعل ہے، 6 تاریخ کو رانا شمیم کے بھائی فوت ہوئے ، 10 کو وہ لندن جا کر بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے میر شکیل الرحمان سے استفسار کیا کہ کیا کوئی بھی ایک بیان حلفی جاری کر دیگا آپ اسے فرنٹ پیج پر چھاپیں گے؟ ثبوت لیکر آئیں ہم سابق چیف جسٹس پاکستان کیخلاف بھی کارروائی کریںگے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی سے سوال کیا کہ کیا آپ نے یہ چیک کیا کہ عدالتی بینچ کب بنا تھا؟ کیا آپ نے چیک کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کب آیا تھا؟ اس کیس میں میرے جج پر انگلی اٹھائی گئی یہ عدلیہ کے تقدس کا معاملہ ہے۔ آپ انویسٹی گیشن کے ماہر صحافی ہیں کیا آپ نے خود اس کی تحقیق کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا لوگوں کو عدالتوں سے اعتماد اٹھایا جارہا ہے۔ رانا شمیم کا بیان حلفی اس عدالت کا حصہ نہیں ہے۔ کیا اس عدالت میں کوئی بتا سکتا ہے ہم نے کسی سے آرڈر لیا ہے؟ سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا میں فرق ہے ۔ اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے۔ آپ کی رپورٹ کی وجہ سے سابق چیف جسٹس کو نوٹس جاری کیا گیا۔

چیف جسٹس کے سوال پر صحافی انصار عباسی نے کہا کہ میں نے بطور صحافی اپنی ذمہ داری پوری کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مکالمہ کیا کہ کیا آپ صرف پیغام رساں ہیں؟ انصار عباسی نے کہا کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں لیکن الزامات کی انکوائری کرائیں۔

عدالت نے پوچھا کہ میر شکیل الرحمان بتائیں کیا گارڈین ایسی خبر چھاپے گا؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب 16 جولائی کو اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق ملک میں ہی نہیں تھے، کیا یہ ہے آپ کی انویسٹیگیشن ؟

دوران سماعت عدالت کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن سے پہلے سماعت کی اور فیصلے کی خواجہ حارث نے کوئئ درخواست دی؟

سترہ تاریج کو پہلی سماعت کے بعد چھٹیوں کے ہوتے بھی 31 جولائی کی انہیں دوسری تاریخ دی گئی، کسی وکیل سے ہی پوچھ لیتے کیا ایک ہی سماعت میں انہیں ضمانت مل سکتی تھی؟

اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید کہنا تھا اپیلوں سے پہلے یہ سب کیسے ہوا اس کی ٹائمنگ دیکھنا ہو گی۔

متعلقہ تحاریر