سابق جسٹس رانا شمیم کے صاحبزادے کے غیرسنجیدہ انٹرویوز

رانا احمد حسن اسلام آباد ہائیکورٹ کے کیس میں سابق جسٹس کی نمائندگی کررہے ہیں، انہوں نے ٹی وی پروگرامز میں غیرضروری گفتگو کی۔

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے ایک حلفیہ بیان کی خبر شائع ہونے کے بعد آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں مذکورہ رپورٹر اور میڈیا گروپ کے مالک سمیت سابق جسٹس صاحب کی بھی پیشی تھی۔

جسٹس رانا شمیم کی طرف سے ان کے صاحبزادے اور وکیل رانا احمد حسن عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور اپنے والد کی جگہ دلائل دئیے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا مریم نواز ، جسٹس (ر) رانا شمیم کے بیان حلفی سے آگاہ تھیں؟

سابق چیف جج سےمتعلق الزامات: نیا پینڈورا بکس کھلنے کا خدشہ

بعد ازاں میڈیا پر اسی کیس کی بازگشت رہی۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں کاشف عباسی نے بھی رانا احمد کو مدعو کیا اور موقف پیش کرنے کا موقع دیا۔

رانا احمد نے براہ راست پروگرام آف دی ریکارڈ میں اعتراف کیا کہ ان کے والد سابق جسٹس رانا شمیم سندھ میں مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے وکیل رہ چکے ہیں۔

میزبان نے بار بار سوال کیا کہ تین برس تک رانا شمیم اتنی اہم بات کو چھپا کر کیوں بیٹھے رہے جس پر رانا احمد کے پاس کوئی جواب نہ تھا، وہ کہنے لگے کہ اس کا جواب صرف والد دے سکتے ہیں۔

رانا احمد سے ٹیلیفونک گفتگو کے بعد کاشف عباسی نے رہنما مسلم لیگ (ن) مصدق ملک سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ مجھے تو یہ سب ایک مذاق لگ رہا تھا۔

دوسری طرف جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ نے بھی رانا احمد سے بات کی۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ اس کیس میں اپنے والد سابق جسٹس رانا شمیم کی نمائندگی کررہے ہیں، کیا آپ نے ان سے ملاقات کی؟

رانا احمد حسن نے جواب دیا کہ نہیں اب تک میری اپنے والد سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ والد کی دو سال قبل لندن میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی، ان دونوں کی دوستی ہے۔

رانا احمد نے کہا کہ جب نواز شریف جیل میں تھے تو میں پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل تھا اور جیل جا کر ان سے ملاقات کرتا تھا۔

یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر ہمارے پورے عدالتی نظام کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے، خود سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کو اپنے الزامات کے دفاع میں ابھی بہت سے ثبوت پیش کرنے ہیں۔

ایسے میں ان کے صاحبزادے اور وکیل رانا احمد حسن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خواہ مخواہ میڈیا پر انٹرویوز نہ دیں اور اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ ایسا نہ ہو وہ اپنے والد کی ساکھ کے ساتھ پوری عدلیہ کو لے ڈوبیں۔

متعلقہ تحاریر