اشتہارات کی بندربانٹ، ایف آئی اے مریم نواز کیخلاف انکوائری کرے گی

ن لیگ اور ان کے من پسند میڈیا ہاؤسز کو اب ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نائب صدر مریم نواز کے آڈیو ٹیپ کے اعتراف کے بعد وفاقی حکومت نے ان کے خلاف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی  (ایف آئی اے) کے ذریعے تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اسلام آباد سے آپریٹ ہونے والے مریم نواز کے میڈیا سیل سے 9ارب 62 کروڑ کے اشتہارات جاری کیے گئے اور پنجاب سے جو میڈیا سیل چلایا جارہا تھا اس کی تفصیلات الگ سے ہیں۔ 15 سے 18 ارب روپے صحافیوں اور مختلف میڈیا گروپس میں بانٹا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز کیخلاف نیب کیس بنتا ہے، آئین کی تین شقوں کی خلاف ورزی ہوئی

پاکستانی لیکچرر دنیا کے بااثر ریسرچرز کی فہرست میں شامل

انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا اعتراف غیر اخلاقی تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ غیرقانونی بھی ہے۔ پبلک فنڈ کو ایک پرائیویٹ شخص کی جانب استعمال کیا جانا ایف آئی اے کے تحت قابل گرفتار جرم ہے۔ مریم نواز کا اعتراف پاکستان کے سنجیدہ صحافیوں کی آنکھیں  کھولنے کے لیے کافی ہے۔ مریم نواز کے اعتراف پر سنجیدہ تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جو کاررائی ہوگی ہم میڈیا کے ساتھ شیئر کریں گے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کی گفتگو

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ مہنگائی کا رونا رونے والوں نے ثابت کیا کہ قوم کے اربوں روپے میڈیا کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ضائع کئے۔ اب اس کا حساب ہوگا۔ مریم نواز نے دو اعتراف کیے کہ میڈیا سیل کو وہ چلارہی تھیں اور کن میڈیا ہاؤسز کو ایڈز دینے ہیں اس کا فیصلہ بھی لیا کرتی تھیں۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے یہ نہیں بتایا کہ کون سے چینلز کو نوازا گیا ، اس کا حساب اب ہم لگائیں گے، صوبوں سے تفصیلات مانگ لی گئی ہیں۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کا مزید کہنا تھا کہ پتہ تو چلے کہ کون سے چینلز اور پروگرامز کو نوازا گیا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایڈز کو ہتھیار بنا کے میڈیا کی آزادی کو کچلا جائے، ہم قوم کے سامنے تمام حقائق آئینے کی طرح رکھیں گے ، اشتہارات روکنا صرف ایک طریقہ ہے اور بھی کئی طریقے تھے جن سے میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔

مریم نواز کی پریس کانفرنس

کل مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ آڈیو میری ہے کہ کن میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات دینے ہیں اور کس کو نہیں دینے ہیں۔

تجزیہ کار 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم نواز کا من پسند چینلز کو اشتہارات دینے کے اعتراف کے بعد انہیں ایف آئی اے کی انکوائری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ، ن لیگ کی اعلیٰ قیادت اور ان کے من پسند میڈیا ہاؤسز کو ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ن لیگ کے دوران حکومت میں اشتہارات کی تفصیلات

حکومت نے ڈیٹا ہے کہ ن لیگ کے دور حکومت میں 9 ارب 62 کروڑ کے اشتہارات مختلف میڈیا ہاؤسز کو دیے گئے جن میں 3 ارب سے زائد کے اشتہارات صرف جنگ اور جیو گروپ کو دیے گئے۔

مریم نواز ایف آئی اے
reporter news 360

واضح رہے کہ پاکستان کے متعبر ترین انگریزی روزنامچے ڈان کے رپورٹر خاور گھمن نے 2015 میں ن لیگ کے دوران حکومت میں مختلف میڈیا ہاؤسز کو دیے جانے والے اشتہارات کے حوالے سے تفصیلات خبر شائع کی تھی ۔

ڈان اخبار کی خبر کے چیدہ چیدہ نقاط

ڈان اخبار کے رپورٹر خاور گھمن کے مطابق "ایک سیکریٹ میڈیا سیل چلتا تھا ن لیگ کے دور میں اور مریم نواز اس کو دیکھتی تھیں۔ اور وہ ڈائریکٹ کرتی تھیں کہ کس چینل کو اشتہار جانا ہے اور کون سی خبر کس چینل کو جانی ہے۔

مریم نواز ایف آئی اے
dawn news

خاور گھمن کی رپورٹ کے مطابق ن لیگ کی حکومت کے قیام کے ایک سال کے اندر، وفاقی حکومت نے وزیراعظم کے دفتر سے باہر کام کرنے والے غیر معروف اسٹریٹجک میڈیا کمیونیکیشن سیل (SMCC) کے آپریشنز کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

رپورٹر کے مطابق "پی ایم ایل این کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ سال (یعنی 2014) کے آخر میں وزارت اطلاعات کے حصے کے طور پر وزیر اعظم کی خصوصی منظوری سے قائم کیا گیا، ایس ایم سی سی اس کے بعد سے ایک طاقتور یونٹ میں تبدیل ہو گیا ہے، جو مریم نواز شریف کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔

ابتدائی طور پر، ایس ایم سی سی کو 15 افراد پر مشتمل عملہ فراہم کیا گیا تھا اور رواں مالی سال (یعنی 2015-16) کے لیے 20 ملین روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔

ڈان کے رپورٹر خاور گھمن کے مطابق بعدازاں وزارت اطلاعات نے SMCC ملازمین کی تعداد 38 تک بڑھانے کے لیے وزیر اعظم سے منظوری حاصل کی۔

SMCC کو بظاہر پچھلے سال الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ٹیپ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، "کیونکہ یہ جدید دور میں انٹرایکٹو میڈیا کی سب سے متحرک شکل اور معلومات تک رسائی کا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے۔”

اس سیل کے پیچھے کام کرنے والے ذہنوں نے یہ بھی دلیل دی، "چونکہ رائے عامہ کو متاثر کرنے میں سوشل میڈیا کا کردار بڑھ گیا ہے، اس لیے یہ حکومت سمیت تمام شعبوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔”

متعلقہ تحاریر