رانا شمیم کو تین سال پرانا قصہ یاد ، 20 دن پرانا بیان حلفی بھول گئے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس (ر) رانا شمیم کو اصلی حلف نامہ داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا محمد شمیم نے کہا ہے کہ انہیں اپنا بیان حلفی یاد نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی ، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی ، جنگ گروپ کے سی ای او میر شکیل الرحمن اور سینئر صحافی انصار عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
خودکشی کرنے والے میڈیا ورکر فہیم مغل کی بیوہ اور 6یتیم بچے امداد کے منتظر
میڈیا ہاؤسز نے اربوں روپے کمائے، بےروزگار صحافی خودکشیوں پر مجبور
سماعت کی ابتداء میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ پاکستان بار کونسل اور پی ایف یو جے سے ہماری رہنمائی کے لیے کون آیا ہے۔؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میڈیا سے متعلق رپورٹڈ ججمنٹس ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس (ر) رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے بیان حلفی سے متعلق اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔ آپ نے اپنا وکیل کس کو نامزد کیا ہے۔ جواب میں رانا شمیم کا کہنا تھا کہ میں اپنا وکیل لطیف آفریدی کو مقرر کیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پھر استفسار کیا کہ کیا آپ نے صحافی سے تصدیق کی کہ حلف نامہ آپ ہی کا ہے۔؟ رانا شمیم کا کہنا تھا کہ جی میں خبر چھپنے کے بعد تصدیق کی تھی کہ حلف نامہ میرا ہے۔ تاہم میں نے صحافی کو حلف نامہ نہیں دیا تھا پتا نہیں کیسے لیک ہوگیا۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ نے بیان حلفی کس مقصد کے لیے تیار کیا ہے۔؟ رانا شمیم صاحب یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے،، آپکے حلف نامے سے لوگوں کا عدالت پر اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ اس عدالت نے عوام کے اعتماد کے لیئے یہ کیس سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔
رانا شمیم کے جواب میں اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ "رانا شمیم صاحب کے مطابق انہوں نے یہ حلف نامہ کسی کو خود نہیں دیا، اب میں عدالت سے درخواست کرونگا کہ عدالت ان سے کہے کہ اصلی حلف نامہ عدالت میں پیش کیا جائے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ کوئی دس پرانا حلف نامہ نہیں جو یاد نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ شکوک پیدا ہو رہے ہیں کہ شاید یہ حلف نامہ رانا شمیم کا تیار کردہ نہیں جس سے یہ تشویش جنم لیتی ہے کہ یہ حلف نامہ کس نے تیار کیا ہے۔
اس پر عدالتی معاون فصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی رائے سے اختلاف کروں گا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت نے دیکھانا ہے کہ رانا شمیم کا حلف نامہ اگر اخبار کے حلف نامے سے مختلف ہے تو اخبار کے اوپر بہت سنجیدہ سوالات کھڑے ہو جائینگے۔ میں توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتا، ججز کو contempt سے اونچا ہونا چاہیئے لیکن یہ معاملہ عوام کا عدالت پر اعتماد کا ہے۔
عدالت کے سوال پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ میرے پاس حلف نامہ موجود نہیں اسے برطانیہ سے منگوانا پڑیگا۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا رانا صاحب لندن کی ایمبیسی میں دستاویز پہنچا دیں حکومت اسے عدالت تک پہنچا دیگی۔
بعدازاں عدالت نے رانا شمیم کو اصلی حلف نامہ داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کردی۔