کیا عارف نقوی مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی مالی معاونت میں ملوث تھے؟

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ ​​کیس میں تازہ ترین پیش رفت کے بعد ابراج گروپ کے بانی مسلم لیگ (ن) کو مبینہ طور پر مالی معاونت کرنے میں بظاہر ملوث پائے گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ ​​کیس میں تازہ ترین پیش رفت کے بعد، عارف نقوی کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے سرکردہ رہنماؤں کو مبینہ طور پر مالی معاونت کرنے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

2018 میں، یہ بات سامنے آئی کہ دبئی میں مقیم ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی نے مبینہ طور پر ایک تاجر نوید ملک کے ذریعےاُس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی سرکردہ لیڈرشپ کی مالی معاونت کرنے کے لیے 20 ملین ڈالر کی بھاری رقم ادا کی تھی۔ یہ معاملہ اس وقت کا ہےجب کے الیکٹرک کو فروخت کیا گیا اور ملک کے وزیر اعظم نواز شریف تھے اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کالم نگار جویریہ صدیق کا بلاگر احمد وقاص گورائیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

سانحہ مری: حکومتی اداروں کے ساتھ میڈیا بھی ذمہ دار ہے

یہ انکشافات 16 اکتوبر 2018 کو وال اسٹریٹ جرنل (WSJ) نے اپنی رپورٹ میں کیا تھا۔

اسپتال کی تعمیر کے لیے عارف نقوی نے 230 ملین ڈالر کے فنڈ غلط طریقے سے اکٹھے کیے تھے جس بنا پر وہ آج بھی امریکا کو مطلوب ہیں، جبکہ عارف نقوی کو برطانوی حکومت نے گرفتار بھی کیا تھا۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ابراج گروپ کے ایک پارٹنر عمر لودھی نے عارف نقوی کو مطلع کیا کہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف اکتوبر 2015 میں چینی بولی دہندگان کو K-Electric کے معاہدے کی توثیق کی یقین دہانی کرانے کو تیار ہیں۔

2002 میں قائم کیا گیا "ابراج فنڈ” مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ تھا جس نے افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور ترکی سمیت دیگر کئی ممالک میں صحت عامہ ، کلین اینڈ گرین توانائی ، قرض دینے اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں بڑے  پیمانے میں سرمایہ کاری کررکھی تھی۔

عارف نقوی نے وال اسٹریٹ جرنل کے الزامات کو مسترد کردیا

پاکستان کے معروف اخبار ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی نے وال اسٹریٹ جرنل کے ان تمام دعوؤں کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے ذاتی اکاؤنٹس یا ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کے اکاؤنٹ سے کبھی کوئی غیرقانونی پے منٹ نہیں کی گئی ، اور نہ ہی انہوں نے "کے الیکٹرک”‘ کی فروخت کی سہولت کے لیے کسی سیاسی شخصیت کو ادائیگی کی تھی۔

عارف نقوی کا کہنا تھا کہ وہ ابراج گروپ سے فنڈ نکالنے کے مجاز ہیں ، بلکہ ان کے بیٹوں کو اس بات پورا پورا اختیار ہے اور موڈیسٹ کو بھی ۔ موڈیسٹ ایک آن لائن لگژری کپڑوں کا کاروبار ہے جس کو ان کی سابق اسسٹنٹ غزلان گینز نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ گینز کو براہ راست کوئی ادائیگی نہیں کی گئی۔ اس ساری صورتحال پر ان کے بیٹوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جبکہ موڈیسٹ نے کہا کہ عارف نقوی کمپنی میں ذاتی سرمایہ کار ہیں۔

عارف نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ابراج گروپ نے ایئر عریبیہ سے حاصل کردہ قرضے کو کسی بھی ہیلتھ کیئر فنڈ میں منتقل نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابراج گروپ نے ہیلتھ کیئر فنڈ سے رقم کا استعمال "عام کارپوریٹ مقاصد کے لیے عارضی بنیادوں پر کیا تھا ۔”

غیر ملکی فنڈنگ ​​کیس

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف  نے 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان 4 سال کی مدت میں 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم کم ظاہر کی، سال کے حساب سے تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم کم رپورٹ کی گئی۔

ای سی پی کی جانچ پڑتال کمیٹی نے رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے 2008 اور 2013 کے درمیان 312 ملین روپے کے فنڈز اپنی جمع کرائی گئی رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا تھا۔

کیا ای سی پی اگلے ماہ مسلم لیگ ن کی غیر ملکی فنڈنگ ​​کا ریکارڈ ظاہر کرے گا؟

اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز وصول کرنے کے علاوہ اپنے درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپائے اور ان کو رپورٹ نہیں کیا، جب کہ پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کے لیے پارٹی کے چیئرمین کے ذاتی اکاؤنٹس سے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ اور ملازمین کو عطیات وصول کرنے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھائے گئے۔

عارف نقوی کا کردار

رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ابراج گروپ آف کمپنیز کے بانی عارف نقوی کی ملکیت والی ایک غیر ملکی کمپنی (ووٹن کرکٹ لمیٹڈ) نے انتخابات سے کچھ دیر قبل پاکستان تحریک انصاف کوبیس لاکھ  ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی۔ عارف نقوی نے اعتراف بھی کیا کہ انھوں نے 2013 میں عمران خان کی انتخابی مہم کی حمایت کی تھی اور یہ رقم عطیہ کی تھی۔

واضح رہے کہ ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی نے مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اور جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) کے خلاف مشکوک غیر ملکی فنڈنگ ​​کی شکایات پر انکوائری شروع کی تھی۔

مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس کا جائزہ لینے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور اسے گزشتہ سال دسمبر میں ای سی پی کو رپورٹ پیش کرنے میں چار سال لگے تھے۔

دوسری جانب ای سی پی نے اپریل 2018 میں مسلم لیگ (ن) کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی تھی، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے سے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی فنڈنگ ​​کے حوالے سے انکشافات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق رپورٹس پر اگلی پیش رفت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

متعلقہ تحاریر