اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پوزیشن کلیئر کردی ، قیاس آرائیاں دم توڑنے لگیں

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے الیکٹڈ حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح بیان مزید گفتگو پر فل سٹاپ ہے۔

چند دنوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش جارہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست بند گلی میں جارہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ معاملات طے کرنے جارہی ہے، تاہم گذشتہ ڈیڑھ ہفتے میں جو کچھ پاکستانی سیاست میں ہوا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ منتخب حکومت کے ساتھ ہے ، کل وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا ہے جو لوگ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ان کے سر پر آجائے تو وہ لوگ سمجھ لیں کہ ایسا نہیں ہونے والا۔

خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کے سر سے تھوڑا ہاتھ اٹھایا ہے تو حالات یہ ہو گئے ہیں۔ پھر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور بعض اینکر پرسن کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ لندن میں میاں نواز شریف کے ساتھ رابطے کیے جارہے ہیں، اور مسلم لیگ (ن) کے قائد کو واپس لانے کی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سرمایہ کاری کرنے والے غیرملکیوں کو شہریت دینے کا فیصلہ

رینجرز اور پولیس شادی ہالز میں کورونا ایس او پیز کا جائزہ لے گی

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے بیانات میں یہ تاثر دیا کہ آصف علی زرداری سے رابطے کیے جارہے ہیں ۔ خود آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہم سے اس حکومت کو ہٹانے کے فارمولے مانگے جارہے ہیں۔

اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ لوگ جو قیاس آرائیاں کررہے ہیں اس سے وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے بات کررہی ہے تو بتایا جائے کہ کیا بات ہورہی ہے اور بات کون کررہا ہے یہ بھی بتایا جائے۔ ثبوت پیش کیے جائیں کہ کون بات کررہا ہے اور کیا ڈیل کررہا ہے۔ اگر کوئی ڈیل ہورہی ہے تو بتایا جائے کہ اس کے محرکات کیا ہیں۔ انہوں نے واضح کہا کہ ان باتوں کو جتنا کم بحث میں لایا جائے اتنا ہی اس کے مفاد میں بہتر ہے۔

اس تاثر کو بھی دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نے غلط ثابت کردیا کہ ان کی نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم سے بن نہیں ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا، جہاں پر انہیں ڈی جی آئی ایس آئی نے ملک کی مجموعی سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی ، ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔

گذشتہ روز آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی ہے ۔ نیشنل سیکورٹی پالیسی جو موجودہ حکومت اور آرمی نے مل کر بنائی ہے وزیراعظم عمران خان نے اسے لانچ کیا۔

سب سے اہم پریس کانفرنس کل وزیرداخلہ شیخ رشید نے کی انہوں نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ان کے سر پر آجائے تو ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں چاروں شریفوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جو ہاتھ یہ لوگ سر رکھوانا چاہتے ہیں وہ ہاتھ ان کے گریبان تک جائیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس میں واضح پیغام دیا ہے اور سب جانتے ہیں کہ شیخ رشید صاحب کس کی زبان بولتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ٹاک میں واضح جواب دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ کھڑی ہے اور دو روز قبل نئے ڈی جی آئی ایس آئی سے وزیراعظم کی ملاقات کو بھی مثبت انداز میں دیکھا جارہا ہے ہے ، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے وزیراعظم کا استقبال کیا اور ملک کی سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اگر نئے ڈی جی آئی ایس آئی خبروں میں نہیں آنا چاہتے تو اس بات کو اس بات سے جوڑنا کہ ان کے وزیراعظم کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں انتہائی نچلے درجے کی سوچ کا انداز ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اینکر پرسنز کو بھی اس حوالے سے ذمہ دارانہ صحافت کرنا ہوگی تاکہ کسی کا آلہ کار نہ بن کر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا ہونے سے بچایا جاسکے اور اسٹیبلشمنٹ نے بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑی ہے ۔ وہی بات جو ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہی تھی کہ ہم الیکٹڈ گورنمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں ایک انتہائی حساس ادارے کے اہم شخص کی جانب سے یہ پیغام مزید گفتگو پر فل سٹاپ لگانے کے لیے کافی ہے۔

متعلقہ تحاریر