رانا شمیم توہین عدالت کیس، کیا میر شکیل الرحمان آج عدالت میں پیش ہوں گے؟

قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ فرد جرم عائد ہونے کی کارروائی سے ایک روز قبل پراسیکیوٹر کو تبدیل کرنے کی رانا شمیم کی درخواست کیس کو لٹکانے کی کوشش ہے۔

رانا محمد شمیم توہین عدالت کیس میں تمام فریقین پر فرد جرم آج عائد کیے جانے کا امکان ہے ، تاہم مرکزی فریق رانا محمد شمیم کی جانب سے گذشتہ روز کیس کے پراسیکیوٹر پر جانبداری کا اعتراض اٹھاتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے کی متفرق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی  گئی ہے ، جبکہ گذشتہ سماعت پر جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کورونا کی وجہ حاضر نہیں ہوئے تھے۔

7 جنوری کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ توہین عدالت کے ملزمان کو کافی وقت دیا گیا، افسوس ہے کہ ملزمان کا موقف یہی رہا کہ کچھ غلط نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے

فرد جرم عائد ہونے سے پہلے رانا شمیم کی پراسیکیوٹر تبدیل کرنے کی درخواست

نواز شریف کو سیاسی حمایت کیلیے بےمعنی جملوں کی ضرورت نہیں

حکم نامے کے مطابق کیس میں رپورٹر، ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر کا موقف اہم ہے، ان کا موقف تسلیم کرنا زیر التوا کیسز سے متعلق کچھ بھی چھاپنے کا لائسنس دینے کے مترادف ہوگا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رانا شمیم توہین عدالت کیس کے ایک دوسرے فریق میر شکیل الرحمان کے کورونا میں مبتلا ہونے وجہ سے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 20 جنوری تک ملتوی کردی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میر شکیل الرحمان آج عدالت عالیہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں یا نہیں ۔ کیونکہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ تمام فریقین کی موجودگی میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔

اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ روز کیس کے مرکزی فریق اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کی جانب سے ایک متفرق درخواست عدالت کے روبرو پیش کی گئی ہے کہ جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ "اٹارنی جنرل کا رویہ پہلے دن ہی سے میرے خلاف نہایت جارحانہ ہے، اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کے نمائندے ہیں۔”

درخواست میں مزید کہا گیا کہ "اٹارنی جنرل خالد جاوید خان مجھے توہین عدالت کیس میں سزا دلوا کر تحریک انصاف کی حکومت کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔”

اس ساری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ سماعت پر میر شکیل الرحمان کورونا وائرس میں مبتلا ہو گئے تھے اور اب فرد جرم عائد ہونے کی کارروائی سے عین ایک دن پہلے پراسیکیوٹر تبدیل کرنے کی درخواست دے دی گئی ، یہ سیدھے سیدھے اشارے ہیں کہ کیس کے فریقین کیس کو لٹکانے کے ٹیکٹکس استعمال کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت اپنا موقف کیا اختیار کرتی ہے ، آیا وہ رانا شمیم کا اعتراض قبول کرتی ہے یا نہیں اور دوسرا یہ کہ کسی بھی فریق کی غیرموجودگی میں فرد جرم عائد کرتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ عدالت نے گذشتہ سماعت پر کہا تھا کہ وہ تمام فریقین کی موجودگی میں توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرے گی۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان تیرہ چودہ دنوں میں یہ بات ضرور ہوئی ہے کہ انصار عباسی سمیت جتنے بھی بڑے بڑے صحافی ہیں انہوں نےخاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ کوئی بیان بازی نہیں ہوئی ، کسی سوشل میڈیا پر عدالتی کارروائی یا توہین عدالت کیس کے حوالے سے کہیں کوئی ذکر بھی نہیں آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام لوگ "تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو” کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

متعلقہ تحاریر