کراچی میں لوٹ مار کی وارداتیں، کامران خان کی ٹوئٹ کچھ غلط بھی نہیں

گذشتہ روز سینئر اینکر پرسن نے سوشل میڈیا پر ڈکیتی کا ایک کلپ اپ لوڈ کیا تھا جو شہرقائد میں ہونے والی وارداتوں کی واضح عکاسی کرتا ہے۔

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سرعام ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ پاکستان کے معروف اینکر پرسن کامران خان بھی دھوکہ کھا گئے اور انہوں نے غلطی سے ڈرامے کی شوٹنگ کا کلپ سوشل میڈیا پر ڈال کر کراچی پولیس اور سندھ رینجرز پر تنقید کے تیر چلا دیئے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے اینکر پرسن کامران خان نے لکھا ہے کہ "خدارا کراچی پولیس ، سندھ رینجرز ہوش میں آئے ، کراچی میں بندوق کی نوک پر لوٹ مار کے یہ بھیانک مناظر اس سال کے پہلے 22 دنوں میں ڈھائی ہزار بار دیکھے گئے۔”

یہ بھی پڑھیے

افسوس صد افسوس ، پاکستانی میڈیا نے ملائیشیا اور اس کے رہنماؤں کا مذاق بنا دیا

وفاقی وزیر داخلہ کی کالعدم ٹی ٹی پی کو مشروط مذاکرات کی پیشکش

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "ہر گھنٹے میں پانچ سات خاندان دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں کئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا، پولیس رینجرز کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔”

اینکر پرسن کامران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو موٹر سائیکل سوار ، کار میں سوار ایک فیملی کو گن پوائنٹ پر لوٹتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں ، شوٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کار سوار نوجوان کی مزاحمت پر ، ڈاکو کا کردار ادا کرنے والا نوجوان اس کے سر پر موزر کا دستہ مار کر اسے زخمی کردیتا ہے۔

کامران خان کے ٹوئٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے سینئر وائس چیئرمین اسامہ قریشی نے لکھا ہے کہ ” اگرچہ یہ خاص ویڈیو ڈرامے کی شوٹنگ کی ہے لیکن یہ کراچی کی روزمرہ کی کئی گلیوں کی سچی کہانی ہے۔ لاء انفورسمنٹ ایجنسیز "ایل ای ایز” اس پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں اور بے گناہ لوگ روزانہ اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔”

تاہم سوشل ایکٹیوسٹ محمد کاشف نے کامران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان کے ٹوئٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے  کہ”ایک اور جھوٹی خبر ایک سینئر صحافی کی جانب سے۔۔۔۔ یہ لوگ کب صحافت سیکھیں گے؟ بغیر کسی تصدیق کے اور بغیر کسی تحقیق کے۔”

بعد ازاں کراچی پولیس نے کامران خان کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اپنی جان ان الفاظ کو ادا کرکے چھڑا لی ہے کہ "یہ ڈرامے کی شوٹنگ تھی جو پی ای سی ایچ ایس میں عکس بند کی گئی۔”

متعلقہ تحاریر