پاکستان میں احتساب کی "سیاہ” "تاریخ” ایک مرتبہ پھر چوراہے پر

وزیراعظم عمران خان کے معاون برائے احتساب شہزاد اکبر اپنے عہدے سے مستعفی ، گلاس توڑا بارہ آنا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی اور احتساب کے سب سے بڑے چیمپئن شہزاد اکبر نے بلاآخر حالات سے ہار مانتے ہوئے اپنا استعفیٰ عمران خان کو بھیج دیا ہے۔ شہزاد اکبر پاکستان میں سارے احتساب کے عمل کے سرخیل تھے ، تاہم ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ یہ پہلی شخصیت ہیں جو اس احتسابی عمل سے باہر ہوئی ہیں اس سے پیشتر بھی ان کے دو پیشرو بغیر کوئی کارکردگی دکھائی رخصت ہو گئے تھے۔

گذشتہ روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے استعفے سے متعلق اعلان کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے لکھا ہے کہ "میں نے بطور مشیر اپنا استعفیٰ آج وزیراعظم کو بھجوا دیا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ پی ٹی آئی کے منشور کے مطابق احتساب کا عمل وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں جاری رہے گا۔”

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

سندھ قومی سیاست کا مرکز بن گیا، کئی پارٹیاں لانگ مارچ کے لیے سرگرم

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "میں پارٹی سے وابستہ رہوں گا اور قانونی برادری کے ممبر کی حیثیت سے اپنا حصہ ڈالتا رہوں گا۔”

وزیراعظم کے حکم پر شہزاد اکبر کی سربراہ میں ایسیٹس ریکوری یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد بیرونی ممالک غیرقانونی طریقے سے منتقل کئے گئے پیسے کو وطن واپس لانا تھا ، مگر شہزاد اکبر اور ان کی ٹیم اس میں بھی کوئی کامیابی سمیٹنے میں ناکام رہی۔

پاکستان کی "سیاہ” "تاریخ” جن لوگوں نے پڑھ رکھی ہے، انہیں اس بات کا بخوبی عمل ہوگا کہ اس سے پہلے بھی دو لوگ ایسے ہی آئے تھے اور ایسے ہی فارغ ہوئے تھے۔

ایسا حادثہ ملک پاکستان کے ساتھ پہلی مرتبہ رونما نہیں ہوا ۔۔۔۔ اس ملک کے اندر ایسا تماشہ ایسے ہی چلتا رہا ہے ۔۔۔۔ اور شائد چلتا بھی رہے گا ۔۔۔۔ سویلین حکومت جب بھی کسی بندے کو لاتی ہے اسی طرح کے بندے کو لاتی رہی ہیں ۔۔۔۔ مثال کے طور پر 1990 سے لے کر 1993 تک اور پھر 1997 سے لیکر کے سن 2000 تک کی "سیاہ” "تاریخ” نکالیں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ جب سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے احتساب بیورو بنایا گیا تو سیف الرحمان کو اس کا سربراہ لگایا گیا تھا جنہیں احتساب الرحمان بھی کہا جاتا تھا۔

Shahzad Akbar announced his resignation from his post
goolge source

 

سیف الرحمان دن رات لوگوں کا احتساب کرتے رہے ، اس دور میں ان کے لیے خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ نہ ٹوئٹر تھا ، نہ واٹس ایپ تھا ، نہ فیس بک تھا اور نہ ہی یوٹیوب تھا۔ اس دور میں روزانہ کی بنیاد پر احتساب بیورو کی طرف سے ایک فیکس اخبار کے مالکان آتا جو "جیسے ہے کی بنیاد” پر چھاپ دیا جاتا تھا۔ آج فلاں کو پکڑ لیا آج فلاں کو پکڑ لیا بس ۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے ) کا ایک مشہور کیس بنا تھا جس میں بے نظیر بھٹو کے دور کے ایک سی ڈی اے سربراہ ملوث تھے شفیع شہوانی صاحب ۔ ایک رات احتساب بیورو نے انہیں اٹھایا تو اگلے ہی ہارٹ اٹیک ہونے سے وہ حوالات میں انتقال کرگئے۔ پھر سیف الرحمان اخباری خبروں تک احتساب کے چیمپئن اور پھر رخصت ہوگئے۔

Shahzad Akbar announced his resignation from his post
google source

ایک احتساب کے سربراہ نجم سیٹھی صاحب بنے ، جو آج کل ہمیں ٹی وی پر بیٹھ کر کرپشن ، جھوٹ اور جمہوریت کی بربادی کا بھاشن دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی جمہوری دور میں وہ بھی احتساب بیورو کے چیئرمین بن گئے تھے ، جب سابق صدر مرحوم فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کرپشن کے چارجز لگا کر فارغ کردی تھی۔ اس وقت کرپشن کے خلاف ایک زبردست مہم چلی تھی ، اس کو لیڈ کررہے تھے نجم سیٹھی صاحب، جو آج کل چینل 24 پر بیٹھ کر آصف زرداری ، بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ وہی کیس بنا رہے تھے فاروق لغاری کے کہنے پر آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو پر۔۔۔۔ لیکن حاصل وصول ہوا کچھ بھی نہیں اور نجم سیٹھی صاحب بھی رخصت ہوگئے۔۔۔۔

اس لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کوئی احتساب سرخیل رخصت ہوا ہے اور جس پر سوشل میڈیا سمیت نیوز چینل پر اتنا واویلا مچایا جارہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں قانون بعد میں بنتا ہے اور اس کو توڑنے کے راستے پہلے بنائے جاتے ہیں یا پھر قانون انصاف میں ایسے ایسے سقم رکھے جاتے ہیں کہ لاکھ کوشش کے بعد بھی ملزم یا مجرم اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ کڑے احتساب کے لیے سخت قانون سازی کرنا ہوگی وہ ایک پیش رو کے دوسرا پیش رو آئے گا اور چلتا جائے گا ، ہاں جو نقصان اور ضیاع ہو گا وہ قوم کے وقت اور قومی خزانے کا ہوگا۔

متعلقہ تحاریر