اٹارنی جنرل نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پر اعتراض اٹھا دیئے

خالد جاوید نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو حلف نامے کے مطابق نواز شریف کی مکمل میڈیکل رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو خط لکھ دیا ہے۔ صدر ن لیگ نے سربراہ ن لیگ کو علاج کی غرض سے باہر بھیجنے کےلیے بیان حلفی جمع کرایا تھا۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے جو میڈیکل رپورٹ موصول ہوئی ہے اس میں صرف اور صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ نواز شریف بیمار ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہیں تو ان کو بیماری کیا ہے ، اس بیماری کی ٹیسٹ رپورٹ کہاں ہیں ، اگر ان کو کوئی ہارٹ کی پرابلم ہے تو کس اسپتال سے ان کا علاج کرایا جارہا ہے ، کون سا ڈاکٹر اس سارے پروسیجر کو ڈائیگنوز کررہا ہے ، ٹریٹمنٹ کےلیے کون سی ادویات استعمال کرائی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعظم کا نیا لاہور بنانے کا خواب چکناچور، ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ

پاکستان نے کرپشن میں 16 درجے مزید ترقی کرلی، ٹرانسپيرنسي انٹرنيشنل

خالد جاوید کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بیماری ہوتی ہے تو اس کا باقاعدہ علاج بھی ہوتا ہے، اس علاج کی ایک مکمل فائل تیار ہوتی ہے ، مگر جو رپورٹ ہمیں ملی ہے اس پر صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ نواز شریف بیمار ہیں۔

میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ نواز شریف کی صحت ٹھیک ہے، وہ لندن میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ، وہ جب ملک سے باہر جارہے تھے تو ان کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل کا نواز شریف کی واپسی کے لیے شہباز شریف کو خط

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے گذشتہ روز شہباز شریف کو ایک خط لکھا تھا جس میں 10 دن کے اندر نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرانی کی ہدایت کی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے نے شہباز کو متنبہ کیا ہے اگر وہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس پیش نہ کرا سکے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے خط میں لکھا ہے کہ شہباز شریف نے حلف نامے کی خلاف ورزی کاتے ہوئے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع نہیں کرائی ہیں۔

یاد رہے کہ 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی، خط میں لکھا گیا کہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

خط میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف جیسے ہی لندن پہنچے، ان کی طبیعت میں بہتری آئی گئی۔ خط میں کہا گیا کہ ’لندن پہنچنے کے بعد نواز شریف ایک دن بھی اسپتال میں نہیں رہے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

خط کے مطابق پنجاب حکومت نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کی جانچ پڑتال کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی نے 17 جنوری کو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ نواز کے ڈاکٹروں کی جانب سے میڈیکل بورڈ کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ اس لیے کمیٹی نے کہا ہے کہ اس حوالے سے حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔

اٹارنی جنرل نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہم نے اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے قبل آپ سے رابطہ کیا ہے تاکہ آپ میڈیکل رپورٹس جمع کرا دیں۔

نواز شریف کیس کی ٹائم لائن

21 اور 22 اکتوبر 2019 کی درمیانی رات نواز شریف کی طبیعت بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

25 اکتوبر کو نواز شریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت ہوئی تھی۔

26 اکتوبر کو نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں انسانی بنیادوں پر عبوری ضمانت دی گئی تھی۔

26 اکتوبر کو نواز شریف کو دل کا ہلکا دورہ پڑا تھا، پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے اس کی تصدیق کی تھی۔

29 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا طبی بنیادوں پر دو ماہ کے لیے معطل کی گئی تھی۔ اور اُنہیں نواز شریف سروسز اسپتال سے ڈسچارج کر کے جاتی امرا منتقل کر دیا گیا تھا۔

8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ سے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست کی تھی۔

12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نواز شریف کو ملک چھوڑنے کی مشروط اجازت دی تھی۔

14 نومبر کو ن لیگ نے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

16 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

19 نومبر 2019 کو نواز شریف اپنے علاج کے لیے لندن روانہ ہو گئے تھے۔

متعلقہ تحاریر