نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کے لیے حکومتی کوششیں بےسود ہوسکتی ہیں، ڈان
پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ڈان کے مطابق سابق وزیر اعظم گذشتہ دو برسوں میں کسی میڈیکل پروسیجر سے نہیں گزرے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے خلاف قانونی دباؤ بڑھا کر ان کی صحت سے متعلق تازہ ترین صورتحال حاصل کرنے کی کوششیں امید کے مطابق نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں۔
روزنامہ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع اور شریف خاندان کے قریبی ذرائع سے ہونے والی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے جس قسم کی تفصیلی میڈیکل رپورٹس مانگی ہیں وہ شاید دستیاب نہ ہوں، کیونکہ سابق وزیراعظم ابھی تک کسی میڈیکل پروسیجر سے نہیں گزرے ہیں جیسا کہ حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چیف جسٹس گلزار احمد نے جاتے جاتے اہل سندھ کو بڑا ریلیف دیدیا
اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، افغان وزیراعظم کی یقین دہانی
ڈان اخبار کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو دل کی نئی سرجری کرانے کا مشورہ دیا گیا جو ان کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ڈان کے مطابق برطانیہ میں کووڈ 19 کے خطرے پیش نظر تمام طرح کی سرجریز کو ملتوی کیا گیا ہے۔
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا میاں نواز شریف کے پاس علاج کے لیے بہت وقت تھا، انہیں کووڈ ہوا تھا یا نہیں۔ اور اگر وہ دو سال تک دوائیوں پر زندہ رہ سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ صحت مند ہیں۔ وہ پاکستان آسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اس سارے عمل کا حصہ رہی تھیں جب نواز شریف علاج کے لیے لندن جارہے تھے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وہ علاج کے بعد پاکستانی عدالتوں کا سامنا کرنے کےلیے واپس آئیں گے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنے دل کی سرجری کے لیے لندن سے علاج کرانے کی درخواست کی تھی ، وہ وہیں سے علاج کرانا چاہتے تھے جہاں سے وہ دو مرتبہ پہلے بھی آپریشن کروا چکے تھے۔
میاں نواز شریف نومبر 2019 سے برطانیہ میں مقیم ہیں جہاں ان کے طبی ٹیسٹ کیے گئے تھے، ڈاکٹرز نے اندازہ پیش کیا تھا کہ جنوری 2020 میں میاں نواز شریف کو بائی پاس سرجری یا اسٹینٹ کے آپریشن سے گزارا جاسکتا ہے۔
ڈان اخبار کے مطابق خاندانی ذرائع نے کہا تھا کہ ہیماتولوجیکل مسائل کی وجہ سے اور اس کی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے امریکہ کے سفر پر غور کیا تھا۔
تاہم اس کے بعد کورونا وائرس کی عالمی وبا شروع ہو گئی ، جس کی وجہ سے برطانیہ کے اسپتالوں کی ایک بڑی تعداد انفیکشن کے زیر اثر مریضوں کی وجہ سے طبی مسائل کا شکار ہوگیا جبکہ طبی عملے کی کمی کا سامنا تھا۔
مارچ 2020 میں برطانیہ میں ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا گیا تھا جبکہ اسپتالوں میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ میاں نواز شریف کی کی جنوری اور مارچ 2020 کے درمیان سرجری کیوں نہیں ہوئی۔
صحت کے پیچیدہ مسائل
ڈان اخبار کے مطابق "مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع سے بات چیت سے پتہ چلا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف دل اور بلند فشار خون کے ساتھ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
سابق وزیر اعظم کو ماضی میں (2010 اور 2016) میں دل کی دو بڑی سرجری ہوچکی ہیں۔ 2019 میں نواز شریف تھروموبائیٹوپینیا (شدید پلیٹ لیٹس کی کمی) کا شکار ہو گئے تھے جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
دل کی تیسری سرجری کے بغیر انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ واپس پاکستان جاسکتے ہیں۔
شریف خاندان کے ذرائع نے بتایا کہ چونکہ اس سرجری کے لیے ماہر سرجنز کی ضرورت ہے کیونکہ گذشتہ سرجیریز کے بعد نواز شریف کو کافی پیچیدگیوں کا سامنا ہے، اس لیے اس بات کا امکان نہیں کہ ان کا خاندان پاکستان میں ان کا علاج کرائے گا۔
اس دوران میاں نواز شریف کے برطانیہ میں رکنے کی مدت ختم ہوگئی اور ان کا پاسپورٹ ایکسپائر ہو گیا جس کے بعد ان کے لیے برطانیہ سے باہر سفر کے مشکلات پیدا ہوگئیں۔
‘نامکمل’ رپورٹس
پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک نو رکنی اسپیشل میڈیکل بورڈ (ایس ایم بی) تشکیل دیا ہے جو سابق وزیراعظم کی میڈیکل رپورٹس کو جمع کرے گا اور اس سلسلے میں نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کے ساتھ بھی مشاورت کرےگا ، آیا مریض کی جسمانی حالت ایسی ہے کہ وہ پاکستان کا سفر کرسکتے ہیں یا نہیں۔
تاہم میڈیکل بورڈ کے ارکان کا کہنا ہے جب تک ہم نواز شریف کی موجودہ طبی تشخیص، خون کی رپورٹس، امیجنگ کے نتائج اور طریقہ کار کی تفصیلات نہیں دیکھ لیتے ، اہم ان کی حالت یا سفر کرنے کی صلاحیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے۔
اگست 2021 میں، ڈاکٹر لارنس نے تین صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ لکھی تھی جس میں کہا گیا: "نومبر 2019 میں ان سے نواز شریف کے علاج کے لیے رابطہ کیا گیا تھا ، تاہم بیماری سے منسلک پیچیدگیوں کے لیے ان کے پاس علاج کی مخصوص مہارت، ٹیکنالوجی اور تکنیک کی عدم دستیابی کا سامنا تھا۔”
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "علاج میں صحیح توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بیماری اور علاج پر خصوصی احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق "یہ بہتر ہوگا کہ ڈاکٹر عدنان خان جو پاکستان میں شریف خاندان کے معالج اور جو نواز شریف کے ساتھ ساتھ دوروں پر تھے۔ ڈاکٹر عدنان خان , نواز شریف کی صحت کے بارے میں ایک خط لکھیں گے اور اسے بورڈ کے ساتھ شیئر کریں گے۔
دوسری جانب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک یہ ایس ایم بی کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ 24 دسمبر 2019 کو ڈاکٹر عدنان خان نے برطانیہ کے سفر کے فوری بعد انہیں میڈیکل رپورٹس فراہم کی تھیں جو نامکمل تھیں۔ میں نے ڈاکٹر عدنان کو جنوری 2020 میں مکمل رپورٹس کے ساتھ طلب کیا تھا مگر وہ نہیں آئے تھے۔