عورت مارچ کے مطالبات پر عورت ہی نے اعتراضات اٹھا دیئے

عورت مارچ کے منتظمین نے اس سال حکومت پاکستان سے 12 مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا ہے۔

عورت مارچ کے منتظمین نے سیف سٹی پروجیکٹس کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے اربوں کے ضیاع قرار دیا ہے جبکہ معروف صحافی مہوش اعجاز نے عورت مارچ کے منتظمین کے اس مطالبے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عورت مارچ لاہور کے شرکاء کو جواب دیتے ہوئے صحافی مہوش اعجاز نے لکھا ہے کہ "کیا جوکر ہیں۔۔۔ محفوظ شہر خواتین کو ہراساں کرنے سے بچا سکتے ہیں! ہر چیز کی نگرانی کی جاتی ہے اور کوئی ہراساں کرنے والا فرار نہیں ہوسکتا!۔”

انہوں نے لکھا ہے کہ "یو اے ای میں بہت سے ہراساں اور گھٹیا حرکتیں کرنے والے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے پکڑے گئے ہیں اور انہیں سزائیں بھی دی گئی ہیں۔”

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی حکومت کا انتخابی اصلاحات سے متعلق نیا آرڈیننس لانے کا فیصلہ

ٹیکس کیسز کا التوا: اسلام آباد ہائیکورٹ کا فل کورٹ اجلاس طلب

عورت مارچ ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے

ہر سال کی طرح اس برس بھی عورت مارچ ، 8 مارچ کو ہوگا۔ عورت مارچ کے منتظمین نے اس سال حکومت کے سامنے کچھ مطالبات رکھے ہیں، جسے "عورت مارچ لاہور: چارٹر آف ڈیمانڈز 2022 – انصاف کا ایک نیا تصور” کا نام دیا گیا ہے۔

عورت مارچ کے منتظمین کے حکومت سے مطالبات

منتظمین کا کہنا ہے 2022 میں ہم پاکستانی سوسائٹی ، ریاست کو قانونی، معاشی، اور ماحولیاتی انصاف کا ایک نیا تصور قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں، جو کہ "فیمینسٹ مستقبل سے مطابقت رکھتا ہو. عورت مارچ لاہور سب کو انصاف اور اس کے معنی پر سوچ بچار کرنے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ، ہم انصاف کے دائرہ کار کو صرف قانون اور انصاف کے نظام کی روایتی اصطلاحوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس سے آگے انصاف کا تصور کرنے کی کوشش کریں، ہمارا مطالبہ ہے کہ:

1 : انصاف کے نظام میں سطحی طور پر صنفی نمائندگی بڑھانے کی بجائے موجودہ نظام کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کیا جائے تاکہ خواتین اور صنفی اقلیتوں کو موجودہ پدرشاہانہ روایات پر قیام پولیس اور عدالتی نظام کا بہتر طور پر حصہ بننے میں مدد مل سکے.

2 : متاثرین کی بحالی کے لیے بنائے گئے اداروں میں زیادہ سرمایہ لگایا جائے اور ان اداروں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ پدرشاہی کے متاثرین کو پناہ، گھر،معاشی، ذہنی اور سماجی سہولیات دے سکیں. ہم ان بچت پر مبنی پالیسیز کو مسترد کرتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کی صحت اور فلاحی اداروں کا بجٹ کم کر دیا گیا ہے. پہلے سے موجود قوانین جیسےکہ پروٹیکشن آف وومن آگینسٹ وائیلنس ایکٹ 2016 پر عملدرآمد یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ کرائسس سینٹرز کی بنیاد رکھی جائے، اور ان کے لیے مناسب فنڈز جاری کیے جائیں. اس کے عالوہ ہم نفسیاتی صحت اور اس سے متعلق مسائل کو حکومتی صحت کارڈ کے دائرہ کار میں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں.

3 : پھانسی اور نا مرد بنا دیے جانے جیسی سزاؤں کو پدرشاہانہ تشدد کے حل کے طور پر پیش کرنا بند کیا جائے، کیونکہ یہ سزائیں ان جرائم میں کمی کا باعث نہیں بنتی اور ان کو صرف عوامی دباؤ اور عوامی رد عمل سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. ہم سزا کی بجائے جرم کی روک تھام میں مدد گار پالیسیز جیسے کہ تعلیم، معاشرتی اور سماجی فلاح پر پیسہ لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جن سے ان مسائل کے حل میں قابل قدر مدد مل سکے.

4 : ہم ہتک عزت کے قانون کی فوجداری حیثیت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں نظاِم انصاف کے متاثرین کے خلاف کام کرنے کی یاد دلاتا ہے۔

5 : سیف سٹی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنا فوری بند کی جائے. یہ پروجیکٹس سالانہ اربوں کا بجٹ کھانے کے باوجود قطعی طور پر غیر موثر ہیں اور ان کی بنیاد تحفظ کے ایک غلط نظریے پر قائم ہے. ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پروجیکٹس میں سے بجٹ نکال کر متاثرین کی بحالی کے پروگراموں پر خرچ کیا جائے.

6 : ریاست سچ، مفاہمت، اور خود احتسابی کا دامن تھام کر لاپتہ افراد کے بارے میں اپنی کوتاہی اور نااہل کو تسلیم کرے اور ان لوگوں کے خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بناۓ.

7 : پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے عالمی معیار کے مطابق کم سے کم آمدنی اور دیکھ بھال کے معاوضے کا تعین کیا جائے، تاکہ سب لوگوں کو رسمی یا غیر رسمی شعبوں سے تعلق کی تفریق کے بغیر بنیادی سہولیات کا حق فراہم کیا جا سکے. ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کی بلامعاوضہ کی جانے والی محنت کو مردوں کی معاوضے کیلئے کی جانے والی محنت کے برابر سمجھا جائے.

8 : غریب اور پسماندہ طبقے کے افراد کو آئی ایم ایف کے پروگراموں کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا خمیازہ بھگتنے سے بچایا جائے. جس کے نتیجے میں نجکاریاں کی جارہی ہیں اور بے انتہا مہنگائی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے. یہ غریب دشمن اقدامات صرف ایسے معاشی انصاف کے ویژن کے لیے کام کرتے ہیں جس سے صرف عالمی سرمایہ داری نظام کو فائدہ ہوتا ہے.

9 : حکومت وقت ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ 2018 پر ہونے والے حملوں کو روکے اور صوبائی سطح پر اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے.

10 : حکومت فوری طور پر مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرے. ہمارا ریاست سے مطالبہ ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی کو جرم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان معاشی ، سماجی اور سیاسی طاقت کے ڈھانچوں پر بھی کام کرے۔ جن کی وجہ سے جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اتنی آسان ہو جاتی ہے۔

11 : موسم میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی بے دخلیوں, اور نقل مکانیوں پر عوامی ہنگامی حالت نافذ کی جائے ، ریاست سب شہریوں کو آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت رہائش فراہم کرے. وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ، جائے. ہم وزی RRUDP جیسے ترقیاتی منصوبوں کی مذمت کرتے ہیں. یہ منصوبے معیشت، اور اُن زمینوں پر نسل در نسل بسنے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے والے افراد پر ایک ظلم ہیں۔

12 : لاہور کی فضا کے بگڑتے ہوئے معیار سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں. ہمارے شہر رہنے کے قابل نہیں رہے اور اس سے صحت عامہ کے ایک بحران کے پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

متعلقہ تحاریر