ایف ائی اے کے 96 ہزار سائبر ہراسگی کیسز، وزیراعظم حل کی تلاش میں

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پاکستان میں عدالتیں ہتک عزت کے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہیں ، جبکہ ہتک عزت کے کیسز میں عدالتوں کو اپنے فیصلوں میں تیزی لانا ہوگی۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے پاس پیکا ایکٹ کے تحت 96 ہزار درخواستیں پڑی ہیں اس بات کا انکشاف وزیراعظم عمران خان نے اپنے گذشتہ روز قوم سے خطاب کے دوران کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کیسز میں سے صرف 38 کیسز حل ہو پائے ہیں۔

صدارتی آرڈیننس کے مندرجات

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گذشتہ 20 فروری کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) کی منظوری دی تھی ۔

آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کسی بھی شخص کو کسی دوسرے فرد کے تشخص پر جعلی خبر دینے کی صورت میں 3 سے 5 سال کی سزا دی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پیکا ایکٹ کے خلاف صحافی برادری کا احتجاجی مظاہرہ

بے بنیاد الزام تراشی، مراد سعید نے ریحام خان کو ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا

آرڈیننس کے تحت درخواست دینا والا شخص متاثرہ فریق تصور کیا جائے گا۔ جعلی خبر کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے، جوکہ ناقابل ضمانت ہو گا۔

صدارتی آرڈیننس کے تحت ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور کیس کی تفصیلات ہر ماہ کی بنیاد پر متعلقہ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گی۔

وزیراعظم عمران خان کا خطاب

پیکا آرڈیننس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس بات پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ حکومت آزادی صحافت کے خلاف قانون لارہی ہے ، جبکہ پیکا قوانین میں ترمیم کا آزادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا پیکا قانون 2016 میں آیا، اس میں ترمیم کا مقصد سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی بےبنیاد خبروں اور فحاشی کو روکنا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے پاس اس وقت 96 ہزار کیسز پینڈنگ ہیں جن میں زیادہ تر کیسز کا تعلق گھریلو خواتین کی ہراسگی کی ویڈیو اور تصاویر سے ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک صحافی نے تین سال پہلے لکھا کہ عمران خان کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ وہی صحافی دوبارہ لکھتا ہے کہ اب وزیراعظم کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیکا آرڈیننس کے حوالے سے کچھ حقائق درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات سمجھ لینے کی ہے وہ یہ کہ پیکا آرڈیننس کوئی نیا قانون نہیں ہے ، پیکا 2016 میں نواز شریف کی حکومت لائی تھی۔ گذشتہ حکومتوں کے دور میں کسی طرح سے سیاسی مخالفین کے خلاف "وچ ہنٹنگ” ہوتی رہی۔”

حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کے پہلے دور سے شروع کریں ، تو پتا چلتا ہے نیوز پیپرز کا باقاعدہ ہدایات ملتی تھیں ۔ احتساب بیورو کے چیف سیف الرحمان کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں کہ کون سے خبر لگانی ہے اور کس طرح سے لگانے ہے۔ میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔

ریڈکو کمپنی جس کے مالک خود احتساب بیورو کے چیف سیف الرحمان تھے وہاں سے ان کے لیٹر ہیڈ پر فیکسز آیا کرتے تھے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں معروف صحافی نجم سیٹھی کو جیل بھیج دیا گیا صرف اس بات پر کہ انہوں نے نواز حکومت کے خلاف کالم لکھ دیا تھا۔ جنگ گروپ سمیت تمام اخبارات کے نیوز پرنٹ بند کردیے گئے ۔ یہاں تک کہ جنگ اخبار صرف ایک صفحے کا رہ گیا ۔ یہ 1997 اور 1998 کی بات ہے۔ پھر ایک لسٹ جنگ گروپ کو فیکس کی گئی جس میں کامران خان ، سہیل وڑائچ  ، ملیحہ لودھی ، نصرت جاوید کے نام شامل تھے ، فیکس میں کہا گیا تھا کہ ان کو نوکری سے فارغ کیا جائے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے یہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت گذشتہ ادوار کے کیسز کو دیکھتے ہوئے پیکا آرڈیننس میں ترمیم اس لیے لانا چاہتی ہے کہ قانون کو مضبوط کیا جاسکے تاکہ ہراسگی کے واقعات اور جعلی خبروں کو روکا جاسکے۔ اگر قانون سخت نہیں ہوگا تو آزادی صحافت کی آڑ میں ہر شخص دوسرے شخص کی پگڑی اچھالتا پھرے گا۔ جبکہ عزتیں تو سب کی  سانجھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں عدالتیں ہتک عزت کے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہیں اس لیے لوگ دیگر ممالک میں کیس فائل کردیتے ہیں۔ ہتک عزت کے کیسز میں عدالتوں کو اپنے فیصلوں میں تیزی لانا ہوگی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ پیکا آرڈیننس ، پیکا ایکٹ کا تسلسل ہے۔ یا تو پیکا لا کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے یا پھر 96 ہزار کیسز کو اگر حل کرنا ہے تو پھر تو کچھ کرنا پڑے گا۔ ورنہ صورتحال مزید خراب ہوتی چلی جائے گی۔

متعلقہ تحاریر