کیا ڈان اخبار فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے ؟

پاکستان کے حالات کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ وہی وقت ہے جب تاتاریوں نے بغداد کا محاصرہ کیا تھا اور علماء غیرضروری مسائل پر مناظرے کررہے تھے

عظیم اسلامی تہذیب  کی تباہی کو آج آٹھ صدیاں بیت گئی ہیں تیرہویں صدی میں ہلاکوخان کی فوج کے ہاتھوں تباہ ہونے والے علم اور حکمت کے مرکز بغداد کو برباد ہوئے کئی سو سال گزرگئے ہیں لیکن آج میں جب پاکستان کے حالات کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ آج بھی وہی وقت ہے جب تاتاریوں نے بغداد کا محاصرہ کررکھا تھا تو وہاں غیرضروری فقہی مسائل پر مناظرے جاری تھے  شیعہ سنی کو نیچا دیکھانے کی بھرپور کوشش کررہا تھا تو سنی شیعہ کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔

آج پاکستان کا بھی حال اس تباہ ہونے والے بغداد سے مختلف نہیں ہے جہاں حکمران طبقہ خلیفہ المعتصم کا کردار ادا کررہا ہے تو سیاست دان  اپنی جیبیں بھر رہے ہیں تو دوسری جانب ریاست کے اہم ترین ستون صحافت  بھی منافقت  کے پیرہن میں ہے، گذشتہ روز کے پی کے شہر پشاور کی مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع  کے دوران خود کش بمبار نے دھماکے سے خود کو اڑالیا  جس کے نتیجے میں 57 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کا انکشاف

بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا

دھماکے کے بعد وہی روایتی بیانات ، وزیراعظم  نے رپورٹ طلب کرلی ، علاقے میں سرچ آپریشن شروع ، دہشتگروں کا تعاقب کیا جائے گا ، شہداء کے لواحقین کے ساتھ تعزیت، اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ ہمدردی اور ایسے ہی روایتی بیانات سننے کوملے ،اس معاملے پر جہاں حکمران طبقے کی بے حسی روایتی تھی وہیں ملک کے سب سے متعبر انگریزی اخبار "ڈان ” کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ  رپورٹنگ   قابل مذمت ہے۔

انگریزی اخبار "ڈان ” نے گذشتہ روز ہونے والے خودکش دھماکے کی خبر کو پہلے صفحے پر جگہ دی جبکہ اس کی ہیڈلائن کچھ ایسے تھی ،”شیعہ مسجد پر حملہ ،57  افراد شہید "، یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے سب سے معتبر انگیریزی اخبار کو مسجد کے ساتھ شیعہ لکھنا ضروری تھا؟، کیا کسی مسجد کے ساتھ دیوبندی مسجد یا بریلوی مسجد لکھا جاتا ہے؟۔

نیو یارک سے جاری ہونے والے ایک بیان میں، کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر، باب ڈائٹز نے جان بحق ہونے والے صحافی ملک عارف کے لواحقین اور صحافتی دوستوں کے ساتھ تعزیت، اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اُن کےبقول، ‘جوں جوں سیاسی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے، پاکستان میں رپورٹنگ خطرناک کام بنتا جا رہا ہے۔’

’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی جانب سے پریس فریڈم کا ایوارڈ حاصل کرنے والے سینئر صحافی   اور ڈان اخبار کے  ایڈیٹر ظفر عباس جو کہ گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت سے وابستہ ہیں  اور شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں   ان کی موجود گی میں ملک کے اہم اخبار میں فرقہ واریت پر مبنی   غیر ذمہ دارانہ خبر  پر سوال تو اٹھتے ہیں  وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک دشمن ملک میں مذہبی فرقہ واریت کے لئے  ہرممکن سازشیں کررہا ہوں ۔

2019 میں امریکا کی ریاست نیو یارک میں منعقدہ تقریب میں پریس فریڈم کا ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر عباس کا کہنا تھا کہ   ”میں نے سچ بتانے کی کوشش میں لگ بھگ چالیس سال لگا دیے۔ صحافت ہتھیار ڈالنے کا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے۔‘‘

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ڈان اخبار نے ایسی  متنازع  رپورٹنگ کی ہے اس سے قبل  کئی مرتبہ ڈان اخبار پاکستان کے مختلف حلقوں کی دل آزاری کا باعث بن چکا ہے ۔

متعلقہ تحاریر