عورت مارچ کا پس منظر اور مطالبات

اقوام متحدہ نے 1975 کو عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے طے کیا کہ آئندہ سال سے 8 مارچ کو "خواتین کا عالمی دن" منایا جائے گا۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد ، لاہور ، کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی عورت مارچ کی مناسبت سے تقاریب اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ عورت مارچ کے حوالے سے ہر برس تنازعات سامنے آجاتے ہیں اور مارچ کے حق اور مخالفت میں دلائل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اس مرتبہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر عورت مارچ کی رہنماؤں کی جانب سے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا جبکہ وفاقی وزیر نور الحق قادری کی جانب سے عورت مارچ کی مخالفت میں وزیراعظم کے نام خط بھی تحریر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مساوی مواقعوں کی فراہمی ناگزیر ہے، اسد قیصر

عورت برقع پسند کرے یا بکنی یہ اس کا انتخاب ہونا چاہیے،ملالہ یوسفزئی

پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق عورت مارچ کی ابتدا 2018میں ہوئی۔

عورت مارچ کا تاریخی پس منظر

1908 کو پندرہ ہزار امریکی خواتین نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں ووٹ کا حق اور بہتر تنخواہ کے ساتھ ساتھ ملازمت کےاوقات کار میں کمی کی جائے۔ عورتوں کی طرف سے یہ پہلی آواز تھی۔

خواتین کا دن کو منانے کی تحریک 28 فروری 1909کو امریکی وومن ڈے کے موقع پر سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کی جانب سے آئی اور پھر یہ تحریک پورے امریکہ میں پھیل گئی۔ یوں 1913 تک یہ دن 28 فروری کو ہی منایا جاتا تھا۔

19 مارچ 1911 کو ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں عورتوں کے دن کو اعزاز کے ساتھ منایا گیا۔ اسی سال عورتوں نے ”روٹی اور گلاب“ کے نام سے مہم چلائی۔

World Pakistan March 8 International Women's Day

روسی خواتین نے پہلی بار یہ دن 23 فروری 1914 کو منایا جس کے بعد طے پایا کہ خواتین کا عالمی دن آٹھ مارچ کو منایا جائے گا۔

روسی عورتیں 1917 میں ایک مرتبہ پھر نکلیں اس بار ان کا سلوگن ”روٹی اور امن“ تھا۔ وہ روسی زار اور دوسرے سیاستدانوں کے خلاف بھی وہ ڈٹ گئیں اور چار دن کے مظاہروں کے بعد انہیں ووٹ کا حق مل گیا۔

اقوام متحدہ نے 1975 کو طے کیا کہ آئندہ سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جائے گا۔

دسمبر 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عورتوں کے حقوق اور عالمی امن کی قرارداد بھی پاس کی کہ یہ دن کسی بھی روز منایا جا سکتا ہے۔ ہر ملک اپنی تاریخ اور روایت کے مطابق اسے منانے کے لئے دن کا انتخاب کر سکتا ہے۔

اقوام متحدہ نے 1996 کو پہلی بار عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک تھیم دیا۔ ”ماضی کو منائیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کریں“۔

اگلے سال موضوع تھا ”عورتیں امن کی میز پر“

اور اس سے اگلے برس ”عورتیں اور انسانی حقوق“ اور پھر  ”عورتوں پر عدم تشدد“ کا تھیم دیا گیا۔ اس کے بعد ہر سال کوئی موضوع چن کر اس پر مباحثہ کیا جاتا ہے۔

World Pakistan March 8 International Women's Day

2000 میں نیا ہزاریہ شروع ہوا تو خواتین کا عالمی دن منانے میں کچھ کمی آگئی، مغرب کی عورت کو اگرچہ کافی حقوق مل گئے مگر دنیا میں عورتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھنا ضروری تھا۔ عدم مساوات امتیازی سلوک اور تشدد اب بھی جاری ہے اور کہیں نہ کہیں عورت کو ان مسائل کا سامنا ہے اوران کے لئے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔

عالمی سطح پر خواتین کی جدوجہد کو نمایاں کرنا اور اور کارکردگی کو جاکر کرنے کے لیے 2001 کو The internationalwomensday.com کے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی گئی جبکہ 2011 میں یوم نسواں کی سنچری منائی گئی مگر عورت اب بھی مظلوم ہے۔ اس سال موضوع تھا ”برابری کی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت۔“

عورت آزادی مارچ کا مقصد کیا ہے؟

عورت مارچ کی رہنماؤں کے مطابق اس مارچ کا مقصد ایسے سماج کی تشکیل ہے جہاں انسانوں میں صنفی امتیاز نہ برتا جائے اور دنیا بھر میں انسان دوست ماحول ہو، جہاں عورتوں کی جبری شادی نہ ہوں، ان کا قتل نہ ہو، ان کے خلاف جنسی تشدد اور تیزاب کے حملے نہ ہوں، انہیں کوئی ہراساں نہ کرے اور نہ ہی اخلاقی پولیسنگ ہو۔

میرا جسم ،میری مرضی

World Pakistan March 8 International Women's Day

عورت مارچ میں گزشتہ برسوں کے دوران کئی نعرے سامنے آئے مگر "میر جسم ،میری مرضی” اس کا تعارف بن گیا۔ جس سے ایک طبقے نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ یہ لبرل ازم کی کوئی تحریک ہے۔ اس طرح اس کا خواتین کے حقوق کے حوالے سے منشور پس منظر میں چلا گیا۔

عورت مارچ اور تصادم

پاکستان میں 2018 کے بعد سے عورت مارچ کا ہر سال انعقاد کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں 8 مارچ 2020 کو عورت مارچ کے شرکاء اور بعض مذہبی تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ جس پر دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد گزشتہ برس عورت مارچ کے موقع پر اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ڈی چوک پر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ جس میں ڈی چوک کے اطراف کی شاہراہیں بند کرکے اجتماع کے اطراف میں خار دار تار لگا دیئے گئے تھے۔

عورت مارچ- حق اور مخالفت میں دلائل

’’عورت مارچ‘‘ کے حوالے سے ہمارے ہاں ، حق اور مخالفت میں، دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ہر برس ملک میں عورت مارچ کے حوالے سے متنازع آراء سامنے آتی ہیں۔

گزشتہ ماہ وفاقی وزیر مذہبی امور ، مولانا نور الحق قادری نے وزیراعظم کے نام تحریر کیے گئے خط میں کہا کہ عورت مارچ‘ میں ایسے نعرے اور پلے کارڈز بلند کیے جاتے ہیں جو ہماری ’’روایات‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ خط تجویز پیش کی گئی کہ پاکستان میں 8 مارچ کو ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ منانے کا اعلان کیا جائے۔

اس خط پر مخالفت بھی سامنے آئی۔ امریکا و برطانیہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ’’یہ ناقابلِ یقین اور بدقسمتی ہے ۔‘‘

پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور سینیٹر شیری رحمان نے ٹویٹ کیا کہ ’’ خواتین کا عالمی دن ہر طبقے کی عورت کے نام ہوتا ہے۔”

وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو یوم حجاب اور عورت مارچ ، دونوں کو منانا درست ہیں۔

مسلم لیگ نواز کی رکنِ اسمبلی حنا بٹ نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ 8 مارچ 2022 کو پنجاب بھر کے شہروں میں عورت مارچ کی شرکا کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے 8 مارچ کے حوالے سے کہا کہ ’’خواتین کے عالمی دن پر جو چاہے عورت مارچ کرے اور جو چاہے حجاب مارچ کرے۔ جمہوری مارچ کو روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ مذہبی جماعتوں کی خواتین مارچ کر سکتی ہیں تو دیگر خواتین کیوں نہیں کر سکتیں؟ دُنیا بھر میں خواتین اپنا دن منا سکتی ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟” ۔

جبکہ مردوں کے ایک طبقے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ "خواتین مارچ ضرور کیا جائے مگر اخلاق کے خلاف اور متنازع پوسٹرز اور بینرز سے گریز کیا جانا چاہئے۔”

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عورت مارچ کے موقع پر سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔

اسلام آباد میں رواں برس انتظامیہ کی جانب سے عورت مارچ کی اجازت نہ دیے جانے پر مارچ کی رہنماوں کی جانب سے سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جہاں ڈپٹی کمشنرحمزہ شفقات کا موقف تھا کہ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے شرکاء بھی 8 مارچ کو اسلام آباد پہنچیں گے جبکہ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کے شرکاء نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ڈی چوک جانا چاہتے ہیں۔ جس پر ڈی سی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ جگہ یا تاریخ تبدیلی کرلیں تو مارچ کی اجازت دے دی جائے گی۔ جس پر عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ عورت مارچ کے ذمہ داران ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے ملاقات کر کے جگہ کا تعین کرلیں۔

عورت مارچ کی رہنماؤں کی جانب سے پہلےجاری کیے گئے شیڈول کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج 8 مارچ کو دوپہر عورت مارچ  کے حوالے سے ماضی کی طرح ریلی نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک اسلام آباد تک آئے گی ، جہاں اجتماع اور تقاریر ہوں گی۔

عورت مارچ  کے رواں برس تین بنیادی مطالبات

عورت مارچ کراچی اور تحریک نسواں کے اعلامیے کے مطابق اس بار تین بنیادی مطالبات ہیں۔

پہلا مطالبہ یہ کہ تمام محنت کش افراد، چاہے وہ کارخانوں یا کھیتوں کے مزدور ہوں، گھریلو مزدور یا سینیٹری ورکرز ہوں ، انہیں کم از کم اتنی اجرت دی جائے جس سے ان کی مناسب رہائش، معیاری تعلیم اور علاج معالجے کی سہولت تک رسائی ممکن ہوسکے۔

اس مقصد کے لئے تمام شعبوں میں کم از کم اجرت کا فوری نفاذ اور اس قانون کی خلاف ورزی پر خلاف سخت قانون سازی کی جائے۔

دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ خواتین اور خواجہ سراؤں کو ماہانہ وظیفے کی مد میں سماجی ضمانت اور تحفظ فراہم کیا جائے۔

تیسرے مطالبہ میں کہا گیا کہ ریاست بچوں کی فلاح و بہبود کو ترجیحات میں شامل کرے۔ اس ملک کے بچے ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ اس مقصد کے لیے ریاست بچوں سے مشقت کرانے، بچوں کی خرید و فروخت، اسمگلنگ اور جبری غلامی کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

متعلقہ تحاریر