باپ کے ہاتھوں 7 دن کی بیٹی کا قتل، عورت مارچ اس لیے ضروری ہے
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے جنوبی ایشیائی گھرانوں میں عمومی طور پر بچیاں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں "عورت مارچ” کے حوالے سے ایک خاص سوچ پروان چڑھ رہی جسے معاشرہ لبرل سوچ کہہ کر رد کررہا ہے مگر یہ سوچ اس پر وقت پروان چڑھتی ہے جب ایک ہفتے کی بچی کو باپ گولیاں مار کر قتل کردتا ہے کیونکہ وہ بیٹا چاہتا تھا۔
قتل کا یہ واقعہ صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں پیش آیا جہاں ایک ظالم باپ نے اپنی 7 دن کی بچی کو 5 گولیاں مار کر قتل کردیا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق قتل کا واقعہ میانوالی کے محلہ نور پورہ میں پیش آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
توہین عدالت کیس ، ہائی کورٹ کی رانا شمیم کو 4 اپریل تک جواب جمع کرانے کی ہدایت
پاکستان اس سال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آئے گا، شوکت ترین
پولیس حکام کے مطابق ملزم قتل کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہو گیا جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
قومی کمیشن برائے خواتین حقوق کی چیئرمین نیلوفر بختیار نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مجرم باپ نے لڑکا نہ ہونے پر بیٹی کو قتل کیا تھا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مجرم انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
نیلوفر بختیار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا آئین انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور خواتین کے حقوق کو پاکستانی آئین میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
پاکستانی معاشرے میں خاندانی قتل کے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ۔ رواں باپ نے اپنی چھ سالہ بیٹی کو صرف اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ اس کی بیوی نے طلاق کی دھمکی دے دی تھی۔
خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات
پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال جولائی سے دسمبر تک پنجاب بھر میں 2 ہزار 439 جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ، 9 ہزار 529 خواتین کو جبری طور پر اغواء کیا اور 90 خواتین کو باپ اور بھائیوں نے غیرت کے نام پر قتل کردیا۔
نفسیاتی ماہرین اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی گھرانوں میں عمومی طور پر بچیاں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، بیٹوں کی ضروریات کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ بیٹیوں کی لازمی ضروریات سے آنکھ چرائی جاتی ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے جہاں نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں وہی بغاوت کا عنصر بھی بیدار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
گھر بسانے کے لیے صرف خواتین قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے، بیٹی پیدا ہو جائے تو بیٹے کی خواہش میں بچوں کی لائن لگا دی جاتی ہے۔ گھریلو معاملات میں ان خواتین کی زیادہ چلتی ہے جو بیٹوں کی مائیں ہوتی ہیں۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پدر شاہی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا کی مسکان کے حق میں بولنے والے مرد پاکستان میں عورت مارچ کی مخالفت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ہو سکتا ہے یہ مخالفت اس بنا کی جارہی ہو کہ جب عورت مارچ میں یہ نعرہ لگایا جاتا ہے "میرا جسم میری مرضی”۔ اس لیے اعتدال کی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ورنہ معاشرہ مزید تباہی کی جانب جاسکتا ہے۔