وزیراعظم کا ترپ کا پتا: ڈپٹی اسپیکر نے 5 اے کے تحت تحریک عدم اعتماد کو خلاف آئین قرار دے دیا

قاسم سوری کا کہنا ہے میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین اور قومی خودمختاری کے منافی ہے۔ اور رولز اور ضابطے کے خلاف اس قرارداد کو مسترد کرتا ہوں۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو آئینی کے منافی قرار مسترد کردیا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان وزیراعظم رہیں گے یا نہیں،تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا وقت آن پہنچا

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے تحریک عدم اعتماد پر اٹھائے گئے آئینی سوالات اور اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے رولنگ دی کہ آئین کے آرٹیکل 5 اے کے تحت تحریک عدم اعتماد کی قرار داد آئین کے منافی ہے اس لیے مسترد کی جاتی ہے۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ متحدہ حزب اختلاف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ 2022 کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ۔ عدم اعتماد کی تحریک کو آئین اور قانون کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کے عوام کی منتخب حکومت کو گرائے۔ وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں ، وہ درست ہیں ۔

اس لیے میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین اور قومی خودمختاری کے منافی ہے۔ اور رولز اور ضابطے کے خلاف اس قرارداد کو مسترد کرتا ہوں۔ ایوان کی کارروائی روکی جاتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 54 کی شق تین کے تحت تفویض کردہ اختیارات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ 25 اپریل تک ملتوی کرتا ہوں۔

اس سے قبل ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی اجازت سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ "تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت پیش کی جاتی ہے عمومی حالات میں یہ ایک جمہوری حق ہے ، اور اس حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ہمارے آئین کا ایک اور آرٹیکل 5 اے ہے ، حب الوطنی ہر شخص پر فرض ہے ، مگر یہاں کیا ہوتا ہے ، 7 مارچ کو ہمارے ایک سفیر صاحب کو ایک آفیشل میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے ، باقاعدہ نوٹ ٹیکر کے ساتھ میٹنگ اٹینڈ کرتے ہیں ، اس ملاقات میں دوسرے ملک کے آفیشلز بھی بیٹھتے ہیں ، اس میٹنگ کی تاریخ کیا ہے 7 مارچ ۔ اس میٹنگ میں ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی ہے ، 7 مارچ کو یہ بتایا جاتا ہے جبکہ عدم اعتماد کا اس وقت تک پاکستان میں وجود بھی نہیں تھا۔ 8 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے ، ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے ہمارے تعلقات کا دارومدار اس عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے جڑا ہے ۔ اگر یہ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کردیا جائے گا ، اور اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں تو آپ کا اگلا راستہ بہت سخت ہو گا۔ یہ ایک افیکٹف آپریشن ہے رجیم چینج کا اور وہ بھی ایک غیرملکی حکومت کی جانب سے۔ بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہی ہمارے کچھ اتحادیوں اور ہمارے 22 لوگوں کا ضمیر جاگ جاتا ہے ، یہ فیصلہ عدم اعتماد کا نہیں بلکہ آرٹیکل 5 اے کا اسپیکر صاحب ۔ کیا 22 کروڑ لوگوں کی یہ ریاست نحیف و نزار ہے کہ باہر کی طاقتیں یہاں پر بیٹھ حکومتیں بدل دیں۔ بتایا جائے کہ کیا بیرون ملک کی مدد سے پاکستان میں حکومت تبدیل کی جاسکتی ہے ، کیا یہ آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے یا نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے عوام کٹھ پتلیاں ہیں؟ کیا ہم پاکستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ کیا ہم غلام ہیں اور لیڈرآف اپوزیشن کے بقول فقیر ہیں؟ جناب اسپیکر اگر ہم غیرت مند قوم ہیں تو یہ تماشہ نہیں چل سکتا۔”

متعلقہ تحاریر