چھ دن کام کرنے کا فیصلہ معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا، نیوز 360 کا سروے
ماہر معاشیات مزمل اسلم کی بھی حکومتی فیصلے پر تنقید کی جبکہ سرکاری ملازمین کا کہنا ہے لنچ اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات سے ان معیشت ضرور خراب ہو جائے گی۔
ہفتے میں 5 کی بجائے 6 دن کام کرنا دانش مندانہ فیصلہ نہیں، سرکاری ملازمین کہتے ہیں اس سے ٹرانسپورٹ، لانڈری اور فوڈ سمیت مزید خرچہ بڑھے گا، ماہر معاشیات مزمل اسلم کی بھی حکومتی فیصلے پر تنقید، نیوز 360 نے خصوصی سروے جاری کردیا ہے۔
ہفتے میں 6 دن کام کرنا سرکاری ملازمین کے لیے درد سر بن گیا۔ ملازمین کا کہنا تھا کہ ہفتے میں 40 گھنٹے کام کرنے کا عالمی قانون ہے۔ سرکاری ملازمین ہفتے میں 5 دن پیر سے جمعہ تک روزانہ 8 گھنٹے ڈیوٹی کرکے ہفتہ وار 40 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ اب 6 دن کام کرنے سے ان کے لیے کئی مشکلات پیدا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
ملکی استحکام و ترقی اولین ترجیح ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
اثاثے چھپانے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ نہیں بنتا، اسلام آباد ہائیکورٹ
ملازمین کا کہنا تھاکہ ملک میں جب توانائی کا بحران تھا اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی تھیں اس وقت پیپلز پارٹی کے دور میں ہفتہ میں دو دن چھٹی اور 5 دن کام کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا۔
کوشش کی گئی ہفتے میں 6 کی بجائے 5 دن 40 گھنٹے ڈیوٹی کی جائے۔ اس طرح ایک دن آفس آنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا خرچہ، روزانہ آفس کی تیاری کا خرچہ اور دیگر انتظامی اخراجات کی بچت ہوسکے گی۔
بعض ملازمین نے بتایاکہ ہفتے کے دن کام پر آنے کے لیے ماہانہ 1200 سے 1500 روپے ٹرانسپورٹ پر خرچ کرنا پڑیں گے۔ ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل نے بتایا کہ ان کی پوسٹیں ان کی سرکاری رہائش سے 40 کلومیٹر دور ہے اور انہیں روزانہ اسکول آنے اور گھر جانے کےلیے 80 کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح ان کے لیے یومیہ 1200 روپے خرچ ہوتے ہیں۔
ہفتہ کے دن اضافی دن ڈیوٹی سے ان کا ٹرانسپورٹ کا ماہانہ خرچہ 4800 سے 5000 روپے بڑھ جائے گا۔ راولپنڈی سے روزانہ مری جانے والی ایک لیکچرار نے بتایا کہ ان کے لیے ہفتے میں دو دن چھٹی کی وجہ سے کچھ سہولت تھی اور ہفتہ کے روز اپنی فیملی اور اپنے بچوں کو ٹائم دے کر ہفتہ بھر کے کام کرلیا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایاکہ ہفتے میں 6 دن کام کرنے کے لیے ان کے لیے ماہانہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ 3000 روپے بڑھ جائے گا۔
ایک خوش لباس بینکر نے بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ڈریسنگ پر 300 روپے اور اپنی برانچ آمد تک 600 روپے اور اپنے روزانہ لنچ پر 400 روپے خرچ کرتے ہیں۔ ہفتے میں 5 کی بجائے 6 دن انہیں اب ہفتے کے روز بھی ٹرانسپورٹ، لانڈری اور فوڈ کے لیے 1300 روپے خرچ کرنا ہوں گے اور ماہانہ ان کے اخراجات میں 4000 روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔
ایک سرکاری ہائیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل نے بتایا کہ ان کے اسکول میں10 سے زائد بسیں ہیں جو یومیہ 20 ہزار روپے کا ایندھن استعمال کرتی ہیں۔ اب 5 کی بجائے 6 دن اسکول کھولنے سے ان کے لیے اسکول کے اخراجات میں ماہانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔
ماہر معاشیات مزمل اسلم نے بتایا کہ دنیا بھر میں اب اسمارٹ کام ہو رہا ہے اور ایسے میں جدید ٹیکنالوجی سے اسمارٹ ورک کے ذریعے دفتری اخراجات میں کمی لائی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہفتے میں 5 کی بجائے 6 دن کام کرنے سے دفتری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھاکہ اس فیصلے سے سرکاری دفاتر، بینکوں اور اسکولوں میں بجلی زیادہ استعمال ہوگی، پٹرول اور ایندھن کے خرچے بڑھ جائیں گے۔ سرکاری عملے سے کام اگر زیادہ لینا ہے تو اس کے لیے ان کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی آئیسکو کے باہر ایک سائل خاتون نے بتایاکہ وہ گزشتہ 4 ماہ سے اپنے خریدے گھر کے بجلی کے میٹر اپنے نام ٹرانسفر کرانے کے لیے دفاتر کے چکر لگا رہی ہیں۔ جس عملے نے 4 ماہ میں ان کا کام نہیں کیا وہ اب بھی نہیں کرے گا۔ جس عملے نے کام نہیں کرنا اس نے انہیں کرنا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ 5 دن یا 6 دن کام کے جھگڑے کی بجائے عوام کے مسائل اور ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔